دیر اپر کا راجہ تا ج محمد اور عمران خان
قیصر خان کی قلم سے
زندگی بہت تلخ اور مشکل ہوتی جارہی ہے۔ اس مشکل اور تلخی کو دور کرنے کے لیے ہم پا نچ دوست ہر سال اگست کے مہینے میں ایک نئی جگہ کی سیر کا پروگرام بناتے ہیں۔ اس کے لیے ہم تقریباَ سرا سال انتظار کرتے ہیں۔ افس کے مشکل زندگی سے نکل کر فطرت کے قریب چند دن گزارتے ہیں۔ اور قدراتی مناظر اور مقامی لوگوں کے رہن سہن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ ہماری منزل کمراٹ اور دیر اپر کا بالائی علاقہ جاز بنڈہ تھا۔ عمران خان صاحب کے کمراٹ جانے کے بعد کمراٹ سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
ہم 10 اگست کے دن افس کے کام نمٹانے کے بعد دیر اپر کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارے F4E Friends for Ever ٹیم کے ایک ممبر ندیم خان نے ہمارے رہائش کا بندوبست شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی شرینگل میں ایک دوست کے ہاں کرایا تھا۔
ہم رات کو یونیورسٹی پہنچے۔ دور پہاڑوں میں یونیورسٹی کا کیا جواز بنتاہے۔ یہ سوال ہمارے ذہنوں میں صبح تک اٹکا ہواتھا۔ صبح ناشتے کے بعد محمد سمی بھائی ( مقامی لیکچرر ) نے ہمیں بتایا ، کہ انھوں نے مقامے گاڑی اور ڈرائیور کا انتظام کیا ہے۔ جاز بنڈہ میں مقامی ہوٹل نہیں ہیں۔ راستے میں شرینگل یونیورسٹی کا ایک حجائب گھر ہے۔ جس کا انچارج راجہ صاحب ہے۔ راجہ صاحب سے بات ہوئی ہے۔ اور وہ ہمارے رہائش کا انتظام جندرے اور جاز بنڈہ میں کرے گے۔
صبح ہم کمراٹ کے لیے نکلے ، کمراٹ کے بلند پہاڑوں ، درختوں اور پھولوں سے بھری وادیوں کی سیر کرکے ہم شام کو جاز بنڈہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم تقریباَ 8 بجے جندرے شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی شرینگل کے میوزیم پہنچے۔ راجہ صاحب کچھ غیر ملکی سیاحوں کے خاطر مدارت میں گھر پر مصروف تھے ۔ اس لیے رات کو ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اس وقت تک میں راجہ صاحب کو کسی خاص قبیلے یا تاریخی دور کا راجہ سمجھ رہا تھا۔ جو کہ ان کے میوزیم سے معلوم ہو رہا تھا۔ یہ میوزیم اب شرینگل یونیورسٹی کی ملکیت ہے۔ لیکن اس کے دیکھ بھال کی ذمہ داری راجہ صاحب کی ہے۔
صبح روایتی لباس میں ملبوس ایک آدمی بالکل عمران خان صاحب کی طرح پرجوش اور اپنے علاقے کی ہر ایک کو تاریخ اور جغرافیہ بتاتے ہوئے ہم سے ملا۔ اس کے الفاظ کچھ یوں تھے۔ " میں صرف آپ لوگوں کے لیے گھر سے آیا ہوں۔ جاز بنڈہ میں آپ کی رہائش کا انتظام ہوگیا ہے۔ آپ جلدی کرے۔ میرا ایک بندہ اپ کے ساتھ جائےگا۔ غیر ملکی صبح سویرے نکل چکے ہیں۔ ہم پاکستانی جلدی نہیں کرتے۔ اس لیے پیچھے ہیں۔ " ایک سانس میں ساری کہانی سنادی۔
اس نے ہمیں ناشتہ کھلایا اور ہم جاز بنڈہ کے لیے نکل گئےایک گھنٹہ انتھائی دشوارگزار راستے سے ہوتے ہوئے ہم نے گاڑی ایک جگہ کھڑی کر دی۔ اور پیدل جاز بنڈہ کے لیے روانہ ہوئے۔
راستے میں ہم نے ڈرائیور سے پوچھا، یہ راجہ کس قبیلے کا راجہ ہے۔ وہ ہنسا اور بولا۔ راجہ کسی قبیلے کا راجہ نہیں ہے۔ بلکہ یہاں کا ایک عام با شندہ ہے۔ لیکن جنونی ہے۔ اس کا والد بندوق سے بات کرتا تھا۔ اور یہ زبان کی میٹھاس سے بات کرتا ہے۔ راجہ اپنے علاقے کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب سے عمران خان صاحب نے وادی کمراٹ کا دورہ کیا ہے۔ اس دن سے راجہ اس علاقے کا واقع راجہ بن گیاہے۔ وہ ہر سیاح کو اپنوں کے طرح ڈیل کرتا ہے۔ عزت دیتا ہے۔ اور اپنی ثقافت اور تہذیب بتلاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے۔ کہ اس کا علاقہ بھی ترقی کرے۔ یہاں کے لوگ بھی خوشحال ہو۔ ان کو بھی زندگی کی بنیادی اسایشیں میسر ہو۔ اور اسی لگن میں وہ دن رات کام کرتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو یہ پیغام دیتاہے۔ کہ راجہ تاج محمد جاز بنڈہ جو کہ دیر اپر صوبہ خیبر پختونخواہ کا دورافتادہ علاقہ ہے۔ اور جو 6 گھنٹے کے پیدل مسافحت پر ہے کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتاہے۔
میں نے راجہ میں ایک غیر معمولی پھرتی دیکھی۔ اور اس پھرتی کا ممبع عمران خان کی شخصیت تھا۔ عمران خان ملک کے بایسوں وزیراعظم منتخب ہوچکے ہے۔ اپنے پہلے تقریر میں وزیراعظم پاکستان نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔اب ہم سب کو دیر اپر جاز بنڈہ کا راجہ تاج محمد بنناپڑے گا۔ اور والحانہ انداز میں اپنے اپنے علاقوں کی ترقی کی لیے جو بھی ہم سے ہوسکے۔ کام کرنا پڑے گا۔ مشکلات بہت ہیں۔ لیکن ہمیں ہمت نہیں ہارنی۔ کیونکہ اب راجہ تاج محمد کو اس کا لیڈر مل چکا ہے ۔