Wednesday 29 November 2023

FLOOD DEVASTATION AND KUMRAT VALLEY

 سال 2010 اور 2022 کے سیلاب کے تباہ کاریاں اور دیر کوہستان کمراٹ ویلی 
Flood Affected Village due to Global Warming
تحریر: گمنام کوہستانی
جب ہم دیر کے طرف سے کمراٹ جاتے ہیں تو تھل سے پہلے جو بڑا گاوں آتا ہے اسے کلکوٹ کہا جاتا ہے۔ کلکوٹ دیر کوہستان کا ایک اہم اور خوبصورت گاوں ہے۔ یہ آج جتنا خوبصورت ہے ماضی میں یہ اس سے بھی بڑھ کر خوبصورت تھا۔ 2010 کے سیلاب سے پہلے یہ بہت خوبصورت تھا۔ آج جہاں پتھر ہے وہاں درخت کھڑے تھے، ہرے بھرے کھیت ہوا کرتے تھے۔ بچپن میں ہم لوگوں نے جس کوہستان کو دیکھا تھا آج کے کوہستان سے وہ بہت مختلف ہے۔ گرمیوں میں ہم لوگ دریا کنارے نہانے جاتے تھے، اس وقت بیلہ میں پھل دار درخت ہوا کرتے تھے آج کے طرح ویران نہیں تھا۔ صرف میں نہیں بلکہ سیری اور مکرالہ کے زیادہ تر بچوں کا بچپن مکرالہ بیلہ میں کھیلتے ہوئے گذرا ہے۔ 2010 کے سیلاب نے کلکوٹ کو بہت نقصان پہنچایا۔ کلکوٹ کیا اس سیلاب نے پورے دیر کوہستان کا حلیہ بگاڑ دیا۔ سیلاب آنے سے پہلے اور آج کےکوہستان میں بہت فرق ہے۔
ہم سے کہا جاتا ہے کہ سیلاب اور زلزلے وغیرہ گناہوں کے وجہ سے آتے ہیں۔ گناہ اپنی جگہ لیکن ہم لوگ بہت زیادہ درخت کاٹتے ہیں۔ سچ میں ہم لوگ درخت کاٹتے ہیں، ہمارے ہاں دیر کوہستان میں ہر سال ہزاروں درخت سردیوں کے لئے کاٹے جاتے ہیں، اور بدلے میں ایک پودا بھی نہیں لگایا جاتا جس کے وجہ سے سیلاب آتے ہیں۔ صاف بات ہے ہم لوگ دوسروں کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن خود کو کس طرح دھوکہ دیں۔ یہاں کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سردیوں میں جلانے کے لئے درخت نہیں کاٹتا۔ ہر ایک کاٹتا ہے مجبوری ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم صرف کاٹیں گے، اس طرح تو ایک دن یہ سب ختم ہوجائے گا پھر آگے کیا کروں گے ؟؟
اکثر کہتے ہیں خدا کا جنگل ہے خدا کی قدرت سے نئے پودے درخت بنتے ہیں ہماری ضرورت ہے مجبوری ہے۔ ٹھیک ہے خدا کی قدرت ہے لیکن قدرت ہماری خواہشوں کے مطابق نہیں چلتی۔ دوسرا پودا خدا کی قدرت سے جلد درخت بنے گا کیسے ؟؟؟۔ دیار سو ڈیڑھ سو سال لگاتا ہے پودے سے درخت بننے میں، پانچ دس سال میں درخت نہیں بنتا کہ آج ہم کاٹ لینگے تو دس پندرہ سال بعد ادھر دوسرا درخت کھڑا ہوگا۔ ہم جس درخت کو 20 پچیس منٹ میں کاٹ کر گرادیتے ہیں وہ پودے سے درخت بننے میں سو سال سے زیادہ وقت لیتا ہے۔
ہمارے بزرگوں نے یہ غلطی کی۔ انہوں نے گاوں دیہات کے آس پاس درخت کاٹ کر جلادیئے۔ اگر وہ چاہتے تو پھل دار درخت لگا کر پھل بھی حاصل کر سکتے تھے اور بوقت ضرورت انہیں جلا بھی سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، جس کی وجہ سے ہم آج خوار ہو رہے ہیں۔ اگر ہم بھی وہی غلطی کرینگے جو بزرگوں نے کی تو کوہستان تباہ ہوجائے گا ۔ یہاں سیلاب، زلزلے آئیں گے۔ موسم کا ادھر سے اُدھر ہونا ہم سب دیکھ رہے ہیں، برفباری کے موسم میں بارش ہوتی ہے اور بارش کے موسم میں برفباری ۔ ابھی یہ حال ہے تو مستقبل میں کیا ہوگا ۔

No comments:

Post a Comment