گمنام کوہستانی کے قلم
سے
جس طرح آج لاہور میں داتا دربار یا بنیر میں پیر بابا مشہور ہے ہمارے ہاں جنڑیاں بابا بھی اسی طرح مشہور تھا۔ آج اگر چہ یہاں کوئی نہیں آتا لیکن ایک وقت تھا کہ یہاں دیر کوہستان کے کونے کونے سے لوگ آتے تھے اور نذر چھڑاکر دعائیں مانگتے تھے۔ نذر میں بھیڑ بکری سے لے کر مرغی اور مکئی کے دانے پیش کیئے جاتے تھے۔ مزار کے آس پاس رہنے والے باری باری یہ نذر وغیرہ لیا کرتے تھے بدلے میں وہ مزار کی صفائی وغیرہ کرتے تھے، کسی کو بیٹا چاہئے تو کوئی بیمار ہے غرض دن بھر یہاں میلہ سا لگا رہتا تھا۔ پتہ نہیں کب آیا تھا، کب مرا،کیسے مرا، تھا بھی یا ایسے ہی مشہور تھا لیکن تھا کوہستان دیر کا اکلوتا اور مشہور بابا ۔
آج دنیا آخون سالاک اور ان کے لشکر کو غازی اور دیر کوہستان میں ہونے لوٹ مار کو جہاد کا مقدس نام دیتی ہے لیکن مقامی تاریخ پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، نا تو یہ لوگ یہاں اسلام کی تبلیغ کے لئے آئے تھے اور نہ انہوں نے کوئی جہاد کیا۔ یہ لوگ آئے لوٹ مار کی، مقامی لوگوں کا قتل عام کیا جو بچ گئے ان کو کلمہ پڑھاکر واپس چلے گئے، نا تو انہوں نے اسلام کے بارے میں بتایا اور نہ پیچھے کسی بزرگ کو چھوڑا جو مقامی لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتا تھا۔ اس وجہ سے کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہاں اسلام کا مطلب بس اتنا تھا، اللہ ایک ہے، قران اللہ کی کتاب ہے، محمدﷺ اللہ کے رسول ہے اور جنڑیاں بابا اللہ کے ولی ہے۔ یہ بات عجیب سی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج سے پچیس تیس پہلے ہمارے لوگوں کو نماز روزے کے بارے میں اتنا خاص پتہ نہیں تھا یہ تو بعد میں تبلیغی آئے تو مقامی لوگوں کو نماز روزے اور دوسرے احکام کے بارے میں پتہ چلا، اس سے پہلے ہمارے لوگ بس مسلمان تھے ۔ جنڑیاں بابا کے بارے میں بزرگ کہتے ہیں کہ جب پشتون یہاں آئے تو ان کے ساتھ گجر بھائی بھی آئے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ 1804 میں دیر خاص پر خان ظفر خان کے حملے سے پہلے داروڑہ شاٹ کس سے اوپر کے علاقوں میں نا تو گجر تھے اور نا پشتون۔ 1804
میں جب دیر خاص پر پشتون قبضہ ہوا تو مقامی دارد کمزور پڑ گئے اور پشتون گجر اندر گھس گئے اس سے پہلے نا تو مقامی تاریخ میں اس بات کا ذکر ہے اور نہ کسی مورخ نے لکھا ہے کہ یہاں پشتون یا گجر بھی آباد تھے۔ جنڑیاں بابا اپنے وقت کا مشہور بابا تھا، روزانہ یہاں درجنوں لوگ آتے تھے اور منتیں مانگتے تھے۔ میں تین بار یہاں گیا ہوں، پہلی بار بچپن میں گیا تھا جب میں بہت چھوٹا تھا کچھ یاد نہیں سوائے اس کے کہ ہماری کالی مرغی ایک منجاور کے بغل میں تھی اور سامنے ایک مزار تھا۔ دوسری بار ابوں کے ایک ہندو دوست رام چند کاکا اور ماموں کے ساتھ، رام چند کاکا قدیم نواردات، سونے کے خزانوں اور شکار کا شوقین تھا اور میرے ابوں کو بھی ان سب کا شوق ہے ۔
تیسری بار اب اپنے دوستوں Abdul Basit, نواب خان اور Shahid Anwar کے ساتھ گیا۔ دوسری بار میں بڑا تھا سب کچھ یاد ہے، یہاں مزار کے عین وسط میں ایک چھوٹا سا جھولا جھول رہا تھا جس سائل کو بیٹے کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ اس جھولے کو تین بار دکھا دیتا تھا۔ مزار کے آس پاس درختوں کے نیچے بہت سارے بچے اور لوگ بیٹھے تھے، مریض وغیرہ مزار کے اوپر بنے پتھر جسم سے لگاتے تھے اور نمک کھاکر صحت یابی کے دعائیں مانگ رہے تھے۔ یہاں چونکہ لنگر وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں تھا تو لوگ سب کچھ خود کر رہے تھے، کوئی کھانا بنا رہا تھا تو کوئی چائے۔ مزار کے اوپر رنگین چادر بچھی ہوئی تھی اور لوبان کی خوشبوں ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ مزار کے زیارت کے بعد ہم لوگ کنال میں سلطان ماما کے گھر گئے، کھانا وغیرہ کھایا اور پھر واپس گھرآگئے۔ اس کے کافی عرصے بعد ایک دن سنا کچھ تبلیغی آئے تھے اور رات کو چوری چھپے مزار کو کھود کر چلے گئے۔ بعد میں پتہ چلا ان حضرات میں ہمارے کچھ رشتہ دار بزرگ بھی تھے جن کو سونے کے لالچ نے مزار کھودنے پر مجبور کیا۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ قدیم قبروں اور عمارات میں سونا اور سونے کے زیورات وغیرہ ہوتے ہیں اس لئے لوگ ان کو کھود کر دیکھتے ہیں، اس وجہ سے آج دیر کوہستان میں ایک بھی قدیم عمارت اور مزار موجود نہیں ہے۔ جویر بنڈ کینو لام میں قدیم وقتوں کے کچھ قبریں تھی وہ بھی سونے کے لالچ میں مٹا دیئے گئے، سنا تھا وہاں سے ایسے پتھر ملے تھے جن پرنقش و نگار بنے ہوئے تھے جنہیں بے کار سمجھ کر پھینک دیا گیا۔
اس کے علاوہ بیراداد کے قلعے سمیت جون داد کے قلعے اور رام شورکین میں موجود ہمارے شاندار ماضی کے سارے نشانات ایک ایک کرکے مٹا دیئے گئے۔ یہی حال جنڑیاں بابا کا بھی ہوا اس کے اندر سے بھی خوبانی کے پرانے تنے کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ نا سونا اور نہ بابا بس مزار تباہ ہوا۔ بعد میں بابا سے معلوم ہوا کہ ہم نے اسے اس لئے کھودا تاکہ لوگ اس گمراہی سے بچ جائے لیکن حقیقت یہی ہے بابا سمیت ان لوگوں نے اسے اس لئے کھودا تاکہ سونا ملے جس طرح دوسرے قدیم مقامات کھودے گئے۔ بزرگوں کے اس کارنامے کے بعد مزار کے آس پاس رہنے والوں نے قبر کو دوبارہ بند کیا اور اسے پھر سے بابا بنانا چاپا لیکن لوگوں نے سنا تھا کہ اندر سوائے خوبانی کے درخت کچھ نہیں ملا تو کون آتا۔ کچھ وقت بدلا کچھ خوبانی کے تنے والی بات مشہور ہوئی لوگوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا۔ آج یہ حال ہے کہ کوئی بھولے سے بھی اس طرف نہیں آتا، جہاں کبھی اتنا رش ہوا کرتا تھا کہ میلے کا گمان ہوتا تھا آج وہاں سناٹے کا راج ہے۔
یہ صرف ایک مزار نہیں تھا بلکہ قدیم داردیک فن تعمیر کا شاہکار تھا، مزار میں لگے لکڑیوں پر بہترین کندہ کاری کی گئی تھی جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا۔ ج یہ حال ہے کہ مزار کے اندر میلی سے چادر کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ نہ وہ رنگین چادریں اور نہ وہ نقش نگار والی لکڑی کے تختے جن کو مزار کے خوبصورتی کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ مزار کے نیچے ایک چھوٹی سے مسجد ہے، اس کی باہر والی بڑٰی ستون اور اور آس پاس قبروں کے سوا جن پر بترین نقش و نگار بنے ہوئے ہیں یہاں کوئی قابل ذکر چیز موجود نہیں ہے ۔ مزار کے قریب قربستان میرے خیال میں دیر کوہستان کا واحد قربستان ہے جس کے قبروں پر قدیم داردیک نقش و نگار یہاں تک قدیم آریا نشانی مقدس گھوڑے کے سر تک بنے ہوئے ہیں۔ میں دیر کوہستان میں بہت گھوما ہوں لیکن مجھے ایک ساتھ اتنے سارے قدیم قبریں نہیں ملی جتنی جنڑیاں بابا کے مزار کے قریب ہے۔ ماضی کا یہ مشہور مزار دیر کوہستان کے مشہور گاوں بریکوٹ کے علاقے جنڑیاں میں واقع ہے۔ بریکوٹ سے گھنٹہ دو گھنٹے کے پیدل مسافت پر واقع اس مزار کی اہمیت اگرچہ اب کچھ بھی نہیں ہے لیکن دیر کے قدیم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں اور خاص کر قدیم داردستان پر تحقیق کرنے والے محقیقن کے لئے یہاں اب بھی بہت کچھ ہے۔
No comments:
Post a Comment