Sunday 20 May 2018

DARA (HUJRA) IN DIR KOHISTAN

(داراہ (حجرہ
عمران خان کوہستانی کی قلم سے
داراہ کو ہمارے ہاں وہ مقام حاصل ہے جو پشتونوں کے ہاں حجرہ کو یا پھر سندھیوں کے ہاں اوطاق کو حاصل ہے ـ یا پھر یو کہنا ٹھیک رہےگا کہ ہم حجرے کو گاوری زبان جو کوہستانی کے نام سے بھی مشہور ہے دارہ کہتے ہیں ـ پہلے زمانے میں چونکہ ہمارے ہاں گاوں بھر کے گھر ایک ہی جگہ پر ہوتے تھے تو سب کا ایک مشترکہ دارہ ہواکرتا تھا ـ اب چونکہ گھر کسی ایک جگہ کہ بجائے پورے علاقے میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں تو اب وہ مشترکہ دارہ تو نہیں ہے لیکن ہر محلے یا خاندان کا ایک مشترکہ دارہ اب بھی موجود ہے ـ دارہ کو ہم کوہستانی معاشرے کی پارلمینٹ کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے تمام علاقائی مسائل پر بحث اور ان کے فیصلے اس جگہ پہ ہوتے ہیں ـ جرگہ کسی خاندان یا محلے کے دارہ میں بیٹھ کر افہام و تفہیم سے کسی بھی مسلئے کا حل خوش اسلوبی سے نکالتا ہے ـ ہمارے ہاں چونکہ اب تک شادی ھال یا اس قسم کی دوسری جگہیں نہیں ہے تو غمی و شادی کی تقریبات اب بھی داروں میں منعقد کئے جاتے ہیں ـ ہر رات کو وہاں گاؤں یا محلے کے تمام لوگ اکھٹے ہوجاتے ہیں، ستار کی سریلی دھنوں پر گاوری کوہستانی گیت سنتے ہیں ،بانسری پر لوک گیت بجائے جاتے ہیں، مزے مزے کی گپیں ہانکتے ہیں ـ کہانیاں سناتے ییں. لوک کہانیاں، علاقائی جنگوں کے کہانیاں، پریوں دیوں کی کہانیاں اور شکار کی کہانیاں ـ ایسے ہی ایک محفل میں محمد جان کاکا نے ریچھ کے ساتھ ہونے والے اپنی مشہور لڑائی کا قصہ سنایا ـ بقول محمدجان کاکا کے موسم گرما کے ایک دن شام کو میرا بیل گھر نہیں آیا ـ میں نے رات کو ادھر ادھر ڈھونڈا لیکن نہ ملا تو صبح سویرے میں اور مندل گھر سے نکلے اور موضوع جندری کے قریب جندری ڈب ( میدان ) پہنچے ـ
راستے میں ہمیں کسی نے بتایا تھا کہ آپ کا بیل کل اس ڈب میں دیکھا گیا ہے، تو ہمیں امید تھی کہ ہمیں زیادہ گھومنا نہیں پڑیگا اور یہی پہ ہمیں بیل مل جائے گاـ موسم خوشگوار تھا اور سورج نیلے آسمان پر چمک رہا تھا ـ ڈب پہنچ کر میں نے مندل سے کہا کہ اب ہمیں الگ ہونا چاہئیں اور بیل تلاش کرنا چاہئیں ـ مندل مجھ سے الگ ہوکر ایک طرف کو جانے لگا اور میں دوسری طرف ـ تھوڑی دیر چلنے کے بعد مجھے دور کسی جگہ جھاڑیوں میں کسی جانور کی حرکت محسوس ہوئی تو میں تیز تیز قدموں سے اس طرف جانے لگا ـ قریب پہنچنے اور بہت تلاش کرنے کے بعد بھی مجھے کچھ نظر نہیں آیا ـ میں وہی تھک ہار کر بیٹھ گیا اور مندل کو آواز دیکر بلایا ـ مندل کے آنے تک میں نے آس پاس کے جھاڑیوں میں بیل تلاش کرنے کی بے سود کوشش کی لیکن بیل نے نہ ملنا تھا سو نہیں ملاـ مندل نے آکر مجھ سے کہا کہ تم سامنے جیلاٹ ( ایک قسم کی جھاڑی جسے گاوری میں جیلاٹ کہتے ہیں) میں گھس جاو اور میں میدان کے اوپر والے طرف نکل جاتا ہوں امید ہے بیل یہاں ہوگا، اگر یہاں نہ ملا تو پھر اگے جاکر ندی کے کنارے والے میدان میں ہوگا ـ میں جیلاٹ میں گھس گیا اور بیل کو ڈھونڈنے لگا ـ تقریباً آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد میں نے اپنے پشت کے طرف کسی جانور کی حرکت محسوس کی ـ میں سمجھا یہ میرا بیل ہے ،میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک جسیم ریچھ کو دیکھا جو خونخوار نظروں سے مجھے گھور رہاتھا ـ میں بلکل ساکت رہ گیا اور کلمہ پڑھنے لگا کیونکہ میں جہاں تھا وہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ـ دائیں اور پشت کے طرف گھنی جھاڑیاں تھی جس میں دوڑنا کیا ٹھیک سے چلنا بھی مشکل تھا .
سامنے کے طرف اس بلا نے راستہ روکا تھا اور بائیں جانب ایک ڈھلوان تھی ـ ریچھ نے بلا تامل مجھ پہ حملہ کیا میں نے ڈھلوان کے طرف چلانگ لگائی لیکن ریچھ کے نوکیلے پنجے میرے کمر میں گھس گئے ـ میں بےبس ہوکر گرگیا ـ ریچھ غصے سے دھاڑنے لگا میں نے ریچھ کے ساتھ دوبدو لڑنا شروع کیا اور کلہاڑی سے اس پر وار کرنا شروع کیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ مرنا ہے تو کیوں نہ لڑکر مرجاؤں ـ میں چیخنے لگا اور ریچھ کے پنجوں سے خود کو بچانے لگا ـ چیخنے سے ریچھ اور بھی غصہ ہوگیا اور زور زور سے غرانے لگا ـ میں نے موقع پاکر ڈھلوان کے طرف دوڑلگادی لیکن ریچھ مجھ سے تیز تھا، ریچھ نے مجھ پر حملہ کیا میں نے کچھ دیر تو کلہاڑی سے اس کا مقابلہ کیا لیکن بلا آخر زخموں سے چور چور ہوکر گرگیا ـ بے ہوش ہونے سے پہلے میں نے ریچھ کے ہانپنے کی آواز سن لی جو میرے قریب کھڑاتھا ـ اس کے بعد مجھے گھر پر ہوش آیاـ مندل نے میرے چیخنے اور ریچھ کے غرانے کی آواز سن کر میرے طرف دوڑ لگائی تھی ـ جب وہ میرے قریب پہنچاتو ریچھ مجھے مردہ سمجھ کر جا چکا تھا پھر اس نے مجھے پیٹھ پر لادکر گھر لایا ـ میں تقریباً تین مہینے بستر پر پڑھا رہا ـ ہسپتال یا ڈاکٹر وغیرہ تو اس وقت نہیں تھا تو گھر پر ہی طبیب صاحب نے میرا علاج کیا اور تین مہینے بعد میں چلنے کے قابل ہوا ـ محمد جان کاکا کے پورے جسم پر اس لڑائی میں ملنے والے زخموں کے نشان ہیں ـ اگر کوئی ان سے ان زخموں کے بارے میں پوچھے تو وہ پوری کہانی سناتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ میرا دوسراجنم ہے ـ اسی طرح نیل اور میل کی کہانی بھی ہم نے ان محفلوں میں کئی بار سنی ہے ـ
ایک اور مشہور واقعہ اس چترالی لڑکی کا بھی تھا جو چترال سے پہاڑی راستے کے ذریعے دیر کوہستان آرہی تھی کہ راستے میں برفباری کے وجہ سے اسے پورے پانچ مہینے بغیر خوراک کے ایک کوہستانی بانال مین گذارنے پڑے ـ اس نے راکھ اور درختوں کے پتوں کو بطور خوراک استعمال کیا اور ہمت سے حالات کا مقابلہ کیاـ پھر موسم بہار کے ابتداء میں کچھ کوہستانی شکاریوں کو مل گئی ـ شروع میں تو شکاری بھی ڈر گئے کہ یہ کیا بلا ہے کیونکہ خوراک نہ ملنے اور موسم سرما کے برفباری اور سخت سردی کے وجہ سے وہ انسان کے بجائے کوئی اور ہی مخلوق لگ رہی تھی ـ لڑکی کے چیخنے اور بولنے سے شکاری سمجھ گئے کہ کوئی لڑکی ہے ـ شکاریوں نے ڈرتے ڈرتے اس پوچھا کہ تم کون ہو کہاں سے آئی ہو؟ ـ اسنے کہا کہ میں آدم زاد ہو اور پھر اپنے بارے میں اور اس حادثے کے بارے میں بتایا کہ کس طرح اس نے پورا موسم سرما ایک بیابان جنگل میں ایک ڈیکیر ( کوہستانی لوگوں کے گرمائی چراہ گاہ میں موسم گرماں گذارنے والے جھونپڑی نما ایک کمرے والے گھر ) میں گذارا اور کس طرح اس نے راکھ اور پتے کھاکر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ـ شکاریوں نے اسے ایک چادر میں لپیٹ کر اور پیٹھ پر لاد کر گاؤں لائے کیونکہ اس کا وزن انتہائی کم ہوگیا تھا اور کسی ننے مننے بچے کی طرح لگ رہی تھی ـ گاوں میں اس کا علاج کیا گیا اور چترال میں اس کے رشتہ داروں کے بارے میں معلوم کرکے انہیں پیغام پہنچایا کہ آپ کی لڑکی زندہ ہے ـ بعد میں جب وہ چلنے کی قابل ہوئی تو اسے چترال اس کے گھر ہہنچایاگیا ـ کہا جاتا ہے کہ وہ گھر سے ناراض ہوکر دیر کوہستان کے طرف بلا ارادہ نکلی تھی موسم صاف تھا تو اسے اندازہ نہیں ہوا کہ برف باری ہوگی ـ اس سال برفباری بھی وقت سے پہلے شروع ہوئی تھی ـ اس کے گھر والے اسے مردہ سمجھ کر خیرات صدقات بھی کرچکے تھے ـ لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ وہ زندہ ہے اور کس طرح اس نے ایک جنگل میں اکیلے تنھا پورا موسم سرما گذارا تو کسی نے یقین نہیں کیا،جب اس کے گھر والے دیر آکر اس سے ملے تو تب ان لوگوں نے یقین کیا کہ یہ سچ ہے ـ ان داراہوں میں صرف قصے کہانیاں ہی نہیں سنائی جاتی بلکہ مستقبل کے لئے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور حالات حاضرہ پر تبادلہ خیالات کیا جاتا ہیں، کچھ لوگ لڈو کھیلتے ہیں کچھ لوگ تاش بھی کھیلتے ہیں، آخروٹ کے ساتھ چائے کا دور بھی چلتا ہے، موسم سرما میں یہاں انگیٹیوں میں جسے ہم بیلر کہتے ہیں آگ جلاتے ہیں ـ ان انگیٹیوں کے اردگرد بیٹھ کر لوگ آگ تاپتے ہیں اور رات گئے تک یہ محفلیں جاری رہتی ہیں ـ شادی بیاہ یا پھر کسی اور خوشی کے موقع پر ستار کے مجالس منعقد ہوتے ہیں ـ
مجلس وہ روایتی رقص کو کہتے ہے جو پاکستان اور افغانستان کے دردی قبائل میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ ان مجالس میں سرود یعنی ستار کے دھن کے ساتھ ڈول کےتاپ پر ایک شخص مخصوص کوہستانی رقص کر تا ہے . جس کے مختلف انداز یہاں صدیوں سے رائج ہیں ـ جو خوشی کے اظہار سے بھرپور ہوتے ہیں جنھیں دیکھنا ایک پرمسرت تجربہ ہوتا ہےـ یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے جس کی مقبولیت میں آج تک کوئی کمی نہیں آسکی ـ ہمارے ہاں چونکہ موسیقی کے وابستہ پیشہ ور لوگ نہیں ہوتے اور نہ کوئی مخصوص شخص ستار یا ڈول بجاتا ہے تو ہر خاص و عام فرد جسے ستار یا ڈول بجانا اتا ہوں وہ بلا تفریق اس میں حصہ لیتے ہیں اسی طرح رقص بھی کوئی خاص بندہ نہیں کرتا بلکہ جسے چنا جاتا ہیں یا پھر جس کی مرضی ہو وہ رقص کرسکتا ہیں ـ ان مجالس میں بوڑھوں بچوں سمیت ہر خاص و عام مرد اگر وہ چاہئے تو شریک ہوسکتا ہے ـ کوہستان کے قبائلی معاشرے میں اس رقص کو کافی اہمیت دی جاتی ہے اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے ـ داراہ میں جب کوئی مہمان آجائے تو اس کی مہمنان نوازی اہل محلہ پر فرض ہوجاتی ہے چاہئیں وہ ان میں سے کیسی کا دشمن ہی کیوں نہ ہوـ یہ دارہ ایک طرح کا درسگاہیں بھی ہیں کیونکہ یہاں نئی نسل زندگی گذارنے کے طریقے سیکھتی ہیں ـ بڑوں کا کس طرح ادب کیا جاتا ہے. مہمانوں کی خدمت کس طرح کرنا چاہئیں وغیرہ وغیرہ یہاں سیکھی جاتی ہیں ـ دعا یے کہ ہماری یہ داراہاور نوجوانوں کی محفلیں سدا آباد رہیں ـ