چمکیل
تحریر : نورلہدا شاہین
کالام کوہستان اور دیر کوہستان سمیت انڈس کوہستان کے بعض علاقوں میں شادی بیاہ اور صدقہ و خیرات کے موقع پر تیار کی جانے والی اس ڈش کو ہم کالامی زبان میں ’چمکیل‘ کہتے ہیں۔ یہ ڈش مختلف علاقوں میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف ناموں سے پہچانی جاتی ہے مگر کوہستانی علاقوں میں اس کی تیاری کے اجزا اور طریقہ کار یکساں ہے۔
ہمارے ہاں کالام میں اس ڈش کی تیاری تقریب سے ایک دن پہلے شروع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم شادی کی تقریب پر بات کرتے ہیں۔ شادی کی تاریخ مقرر ہونے کے بعد بھینس یا گائے خریدی جاتی ہے۔ ہمارے بچپن میں ایک ہی بھینس سے کام چل جاتا تھا۔ آج کل آبادی بڑھنے کے باعث دو سے کم بھینسوں پر گزارہ نہیں ہوتا۔
اس کے ساتھ ہی مکئی کا آٹا اور خالص دیسی گھی خریدا جاتا ہے۔ شادی سے دو دن پہلے لڑکوں کی ٹولیاں بناکر پورے گاؤں سمیت اطراف کے علاقوں میں پیغام بھیجا جاتا ہے اور وہ ہر گھر کے دروازے پر جاکر اطلاع دیتے ہیں کہ پرسوں فلاں کے بیٹے فلاں کی شادی ہوگی۔ آپ سب لوگ کل حاضر ہوجائیں۔
یوں شادی سے ایک دن قبل دوسرے گاؤں کے عزیز و اقارب تحفے تحائف لیکر پہنچ جاتے ہیں اور گاؤں کے لوگ لکڑی کا بار پیٹ پر لاد کر لاتے ہیں تاکہ دیگ پکاتے وقت لکڑی کم نہ پڑ جائے۔ گاؤں کے ہر گھر سے ایک بندہ لکڑی لازمی لاتا ہے۔
اسی طرح شادی سے ایک دن قبل بھینیسں ذبح کی جاتی ہیں اور یہ ساری کارروائی رشتہ دار اور پڑوسی رضاکارانہ طور پر کرتے ہیں۔ شادی کے گھر والے صرف ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ گوشت کاٹنے کے بعد گوشت کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ شادی سے ایک دن پہلے عصر تک تیار کیا جاتا ہے اور گاؤں کے لوگ نماز عصر کے بعد پہنچ جاتے ہیں۔ مگر اس دوران شادی کے گھر میں ایک اور کام ساتھ چل رہا ہوتا ہے یعنی مکئی کا اٹا 5 کلو والے شاپنگ بیگز میں ڈالا جاتا ہے اور جہاں کھانا کھایا جاتا ہے، اس کے پاس ہی دو تین چارپائیاں بچھاکر اس کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے۔
گاؤں والے کھانا کھانے کے بعد خاموشی سے ایک شاپر اٹھاکر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور شادی کے گھر میں اگلے دن یعنی عین شادی کے دن کیلئے دیگیں چڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ دیگ میں صرف پانی، نمک اور گوشت ڈال کر اس کے نیچے دباکر آگ جلائی جاتی ہے اور رات بھر لوگ دیگوں کے ارد گرد چارپائیوں، پتھروں اور کرسیوں پر بیٹھ کر جگتیں اور گپ شپ کرتے رہتے ہیں۔ جب دیگ میں گوشت پک جائے تو آگ بجھا کر صرف کوئلہ رہنے دیا جاتا ہے تاکہ دیگ ٹھنڈا نہ ہوجائے۔
صبح ہوتے ہی گاؤں والے مکئی کی روٹی بناکر صاف ستھرے کپڑوں میں لپیٹ کر شادی والے گھر کا رخ کرتے ہیں۔ ادھر بارات کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ دن 11 سے 12 بجے کے درمیان بارات گھر پہنچ جاتی ہے اور اس کے بعد کھانا شروع ہوجاتا ہے۔ کھانے کیلئے کسی بھی کھلے میدان میں دو متوازن لکڑیاں رکھ کر ’پینڈہ‘ بنایا جاتا ہے یا پھر کسی بڑے ہال میں لمبا دسترخوان بچھایا جاتا ہے۔
اس کے بعد مٹی کے مخصوص برتنوں میں خالص سفید شوربہ ڈال کر مکئی کی روٹی کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھاتا جاتا ہے۔ لوگ روٹی اس میں اچھی طرح چوری کرتے ہیں۔ پھر ایک بندہ مٹی کے ایک اور مخصوص برتن میں دیسی گھی لیکر آتا ہے اور ہر برتن میں حسب ضرورت ڈالتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بندہ تیلیوں سے بنے ایک مخصوص برتن میں گوشت لیکر آتا ہے اور ایک بزرگ گوشت تقسیم کرتا جاتا ہے۔ لوگ ہر نوالے کے ساتھ تھوڑا سا گوشت بھی کھاتے ہیں اور بعض لوگ اپنے حصے کا گوشت روٹی کے ٹکڑے میں لپیٹ کر گھر لے جاتے تاکہ جو لوگ کسی وجہ سے شادی میں شریک نہ ہوسکے وہ بھی چھک سکیں۔
اس پوری تقریب میں صرف اشیا کی خریداری پر پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام سروسز گاؤں کے لوگ رضاکارانہ سرانجام دیتے ہیں یہاں تک کہ برتن دھونا، کھانا پیش کرنا اور آخر میں برتن اٹھانا گاؤں کا ہر فرد اپنا فرض سمجھتا ہے۔
اس میں بہت ساری کیوٹ باتیں مزید طوالت سے بچنے کیلئے چھوڑ دیں۔ اس خوبصورت کلچر پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر خیر۔۔۔ یار زندہ صحبت باقی
No comments:
Post a Comment