گمنام کوہستانی کے قلم سے
1947 میں جب کشمیر میں طبل جنگ بج گیا، ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہوئی اور سوات کے والی نے سرکاری دستے کشمیر روانہ کئے تو پورے دیر میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی۔ عوام نے احتجاج شروع کیا لیکن نوابان دیر نے کوئی دھیان نہ دیا۔ سلیمان شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ " عبدالمناف، شیر احمد خان اور قاضی شمش الرحمان کی نگرانی میں لوگوں نے ایک جلوس نکالا جس میں حکومت سے جہاد میں شرکت کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جلوس میں عبدالشکور نامی نوجوان ڈفلی ( تمبل ) کے ساتھ یہ ترانہ گا رہا تھا
شمشیر په لاس کې ګډہ ووم دا دین غزا له زمه دا دین آباد له زمه
جب نواب کو خبر ملی تو مذکورہ مشران پر قتل کے برابر پانچ سو روپیہ جرمانہ لگایا گیا، ( گمنام ریاست، حصہ دوم ص 122 ) ۔۔۔
ہم سے کہا جاتا ہے کہ نوابان دیر کی ذاتی دلچسپی کے وجہ سے دیر کے عوام نے بڑھ چڑھ کر اس جنگ میں حصہ لیا تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نہ تو نوابان دیر کو کشمیر میں دلچسپی تھی اور نہ وہ چاہتے تھے کہ دیر کے عوام دیر سے باہر نکلیں، کیونکہ اگر لوگ باہر جائیں گے تو دنیا دیکھیں گے جس سے اس کے اقتدار خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ جہاں تک جذبہ جہاد کی بات ہے تو نواب دیر انتہائی عیاش اور جابر حکمران تھا۔ بقول سلیمان شاہد صاحب
" نواب انتظامیہ بھی یہ اقرار کرتی ہے کہ کسی نے حکمران کو اسلامی ارکان جیسے نماز، روزہ، حج اور زکواۃ کی بجاآوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا" ( گمنام ریاست حصہ دوم ص 122 ) ۔۔
ایک جابر اور عیاش حکمران سے جہاد کی امید رکھنا حماقت تھی اس لئے عوام نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور پورے دیر میں انتشار پھیل گیا۔عوام کے جذبہ جہاد اور غیض و غضب کو دیکھ نواب دیر نے مجبور ہوکر سرکاری طور طبلِ جنگ بجایا۔ نوابِ نے فوجی دستوں کے نظم و نسق، نقل و حمل اور دیگر ضروری امور کا اہتمام ولی عہد محمد شاہ خسرو کے سپرد کرکے قوم کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ سلطان خیل، پائندہ خیل، نصرالدین خیل اور اوسی خیل۔ نصرالدین خیل قبائل کو ابتدائی دستوں میں روانہ کیا گیا۔ قبیلے اوسی خیل کا کام تھا میدان جنگ سے لاشیں اٹھانا اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا۔ سلطان خیل کو فرنٹ لائن پر لڑنے بھیجا گیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ریاست دیر کے حکمران قبیلے پائندہ خیل نے اس جنگ میں حصہ لینے سے انکار کیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ ہر اول دستوں میں براول، میدان کے علاوہ مشوانی، وردگ، ترکلانی، کوہستانی اور دوسرے کئی قبائل کے لوگ شامل تھے ۔ مجاہدین تیمرگرہ میں جمع ہوئے جہاں گیدڑو ( نوے کلے) کے مقام پر لشکر نے پڑاو ڈالا، یہ کوئی آج کل کے جہاد کے طرح صوم و صلواۃ والا جہاد نہیں تھا بلکہ اس وقت ڈھول سُرنا بج رہا تھا اور شمندوروزئی نام کی ایک رقاصہ ناچ رہی تھی۔۔۔
ادینزئی اور تالاش کے ریاستی ملازمین اور رضاکاروں پر مشتمل آٹھ سو افراد کا یہ لشکر دوسرے دن چکدرہ پہنچا، جہاں ولی عہد نے ایک پرجوش تقریر کی اور فتح و نصرت کی دعائیں مانگ کر لشکر کو رخصت کیا، اس طرح نومبر 1947ء کے اوائل میں ریاست کا پہلا دستہ عبداللہ جان تحصیلدار کے قیادت میں چکدرہ سے میر پور کے محاذ کے طرف بڑھا۔ 23 نومبر 1947ء کو دیر کا لشکر میر پور پر ٹوٹ پڑا، بزرگوں سے سنتے ہیں کہ مجاہدین کے اچانک اور غیر متوقع حملے کے وجہ دشمن گھبرا گیا اور لشکر شہر میں داخل ہوا۔ میر پور کوئی عام محاذ نہیں تھا بلکہ فوجی لحاظ سے یہ کافی مضبوط محاذ تھا۔ لشکر نے رات کو حملہ کیا اور صبح ہوتے ہی واپس اپنے مورچے کے طرف لوٹ آیا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ 24 نومبر کو لشکر نے آرام کیا اور 25 نومبر 1947ء کی صبح دوبارہ شہر پر ہلہ بول دیا۔ دس گھنٹوں تک گھمسان کی جنگ لڑنے کے بعد دشمن پسپا ہوا اور شہر دیر کے قبضے میں آگیا۔ لشکر 28 نومبر کو میر پور سے آگے بڑھا اور پیرکلے نام کے مقام پر قیام کیا۔ اس کے بعد لشکر " پونہ " سے ہوتے ہوئے " بید " پہنچا۔ دسمبر 1947ء میں میدان اور دیر خاص کا ایک اور فوجی دستہ محاذ پر پہنچا۔ بید سے دشمن کا فوجی ہیڈکوارٹر “دھرمسالہ” ایک میل کے فاصلہ پر تھا۔ دھرمسالہ کا یہ فوجی ہیڈکوارٹر کئی ایک مضبوط مورچوں میں گِھرا ہوا تھا، جن میں متلاشی، سریا اور مکڑی کے مورچے مضبوطی کے لحاظ سے مشہور تھے۔ ان مورچوں کی موجودگی میں مذکورہ فوجی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرنا مشکل کام تھا، لیکن دیر کے لشکر نے باقی دستوں کے آنے سے پہلے حملے کی تیاری شروع کی۔ مجبوری تھی ایک طرف اگر بید تک پہنچنے کا راستہ انتہائی مشکل تھا تو دوسری طرف دشمن کی فوج بھاری کمک کے ساتھ ضلع راجوڑی کے شہر نوشہرہ پہنچ چکی تھی، جہاں سے کوٹلی کی طرف پیش قدمی کرنے اور میرپور خاص پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی تھیں، تاخیر کی صورت میں میرپور بھی ہاتھ نکل جاتا۔ ان مورچوں میں متلاشی مورچوں کا سلسلہ مضبوط اور اہم تھا، ان مورچوں میں مشین گنوں کی پوری ایک بٹالین موجود تھی، کہا جاتا ہے کہ مورچوں میں موجود سکھ فوجیوں نے ایک دوسرے کو آہنی زنجیر سے باندھا ہوا تھا، تاکہ بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو ۔
24 دسمبر کو دیر کے لشکر نے عبداللہ جان تحصیلدار کے قیادت میں متلاشی پر حملہ کیا، ایک طرف جدید مشین گنوں سے لیس ایک تربیت یافتہ فوج تھی اور دوسری طرف یوبندے، پیتے اور تلواروں کلہاڑیوں سے لڑنے والے دیر کے قبائلی ۔ چھ گھنٹوں کی خون ریز لڑائی کے بعد دھرم سالہ پر بھی دیر کا لشکر قابض ہوگیا۔ دسمبر ہی میں دریائے جہلم کے کنارے واقع منگل کوٹ نام کا ایک اور قلعہ بھی لشکر کے قبضے میں آگیا۔ اس قلعے پر اس سے پہلے آزاد کشمیر کی فوج حملہ کر چکی تھی لیکن ایک ماہ کی لڑائی کے بعد بھی قلعہ قبضے میں نہیں آیا، دیر کے لشکر نے کشمیری فوج کے ساتھ مل کر اس قلعہ کو فتح کیا۔ دھرمسالہ کے لڑائی میں کمانڈر تحصیلدار عبداللہ جان زخمی ہوئے تھے اس لئے ان کی جگہ تحصیل دار حضرت علی کو کمانڈر مقرر کیا گیا۔ دھرم سالہ میں ہمارے بہت سارے لوگ شہید ہوئے تھے اس لئے لشکر کمزور ہوگیا تھا سو دھرمسالہ ہی میں قیام پذیر رہنے کو ترجیح دی گئی۔ 24 جنوری 1948ء کو دیر کا تیسرا فوجی دستہ دھرمسالہ پہنچ گیا جس کی کمان صوبیدار میاں عبدالغفار کو سونپی گئی تھی، ساتھ ملک رحیم اللہ جان نائب کمانڈر مقرر تھے۔ ایک دو دن کی آرام کے بعد لشکر رائے پور کی طرف روانہ ہوا اور نوشہرہ پر حملے کی تیاری کرنے لگا۔ نوشہرہ کے قریب شمال کی طرف “ٹائی” نام کی ایک پہاڑی چوٹی ہے۔ اس پہاڑی چوٹی پر نوشہرہ کے فوجی ہیڈکوارٹر کی حفاظت کے لیے تین مضبوط مورچے بناگئے تھے۔ 5 فروری 1948 کی رات کو لشکر نے رائے پور سے " باٹا " کے طرف بڑھنا شروع کیا، باٹا “ٹائی” کے دامن میں واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ صبح سویرے لشکر نے تینوں مورچوں پر بیک وقت حملہ کیا، پہلے مورچے پر براول کے دستے نے میجر گل ملا خان کی قیادت میں حملہ کیا۔ دوسرے مورچے پر رحیم اللہ خان کے دستہ نے حملہ کیا اور اور تیسرے پر صوبیدار سید محمود جان کی کمان میں جندول اور باجوڑ کے لوگوں نے حملہ کیا۔ دیر کا لشکر ڈٹ کر لڑا، پہلے حملے میں براول کا دستہ اپنے کمانڈر سمیت مورچہ کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا لیکن باقی دونوں دستوں کو دشمن نے دوسرے اور تیسرے مورچے میں داخل ہونے سے روک لیا۔ کچھ بزرگ کہتے ہیں کہ یہاں بارودی سرنگیں تھی اس لئے ہمیں شکست ہوئی کچھ کہتے ہیں کہ کسی نے دشمن کو مخبری کی اس لئے وہ ہمارے آنے والے ہر راستے سے باخبر تھا اور ٹھیک ٹھاک وہی گولیاں برسا رہا تھا، دیر کے لوگ تلواروں اور کلہاڑیوں سے تاریکی میں حملہ کرتے تھے جس سے دشمن کو حملے کی سمت کا پتا نہیں چلتا تھا، لیکن ٹائی میں دشمن کو دیر کی فوج کے نقل و حمل کا پورا پورا علم تھا۔ اس لئے اب حقیقت کیا ہے یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہاں دیر کا لشکر شکست کھا گیا۔ “ٹائی” پر حملہ دیر کے لشکر کو کافی بھاری پڑا، یہاں ہمارے تقریباٰ 600 سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ۔ سپہ سلار میجر گل ملا خان سمیت غفار میجر، محمد شاہ تحصیلدار اور ان کا بیٹا شمشیر، فضل غفور تحصیلدار، صوبیدار شیر افضل خان عرف کیر خان، رحیم اللہ جان، صوبیدار میاں عبدالغفار اور صوبیدار سید محمدو جان اور کئی نامی گرامی بہادر شہید ہوئے۔ (گمنام ریاست حصہ دوم ص 124)۔۔
اس جنگ میں سب سے زیادہ جانی نقصان براول کے لوگوں نے اٹھایا، براول کا دستہ اپنے کمانڈر صوبیدار میجر گل ملا خان کے قیادت میں مورچہ کے اندر تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا لیکن کمک نہ ملنے کے وجہ سے سب کے سب مورچہ کے اندر اکیلے ہی لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ٹائی میں شکست کھانے کے بعد زخمی لشکر نے دھرمسالے میں ڈیرہ ڈال دیا۔ اس دوران دشمن نے افواہ پھیلائی کہ نوشہرہ سے دشمن کی پیش قدمی ہو رہی ہے لیکن لشکر اس قابل نہ تھا کہ دشمن کا مزید مقابلہ کرسکے، 600 سے زیادہ جوان شہید ہوگئے تھے اور لاتعداد زخمی تھے اس لئے لشکر نے واپس میرپور اور جہلم کے طرف سفر شروع کیا۔ جب دیر کے لشکر نے واپسی شروع کی تو دشمن نے آگے بڑھ کر مقبوضہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا۔ اس دوران دیر کے مزید تازہ دم دستے محاذ پر پہنچ گئے تھے۔ بزرگوں سے سنتے ہیں جب دشمن نے مفتوحہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنا شروع کیا تو لشکر نے مفتوحہ علاقے کو دیر کی ملکیت ڈکلیر کرکے دوبارہ حملہ کیا اور مذکورے علاقوں پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے یہاں تک کہ جنگ بندی کا اعلان ہوا جنگ ختم ہوئی ۔۔
کشمیر کی لڑائی میں ہمارے بزرگوں نے بھرپور حصہ لیا تھا، دیر کے ہر گاوں ہر علاقے سے لوگوں نے اس میں شرکت کی، اسے ریاست دیر کی جنگ قرار دینے والے غلط ہے اگر یہ ریاست لڑتی تو کیا نواب دیر کے قبیلے پائندہ خیل نے اس میں شرکت کی ؟؟؟۔ اس جنگ میں تقریباٰ دو ڈھائی ہزار لوگوں نے شرکت کی اور ان میں بہت کم ہی لوگ واپس آسکے، اکثریت وہاں شہید ہوئی جن لاشیں بھی اُدھر ہی رہ گئیں۔ والی سوات نے اس لڑائی میں شہید ہونے والے شہداء کے وارثین کو روپے دیئے، سپاہی کو ایک ہزار،حوالدار کو بارہ سو،اور صوبیدار کے لواحقین کو پچیس سو روپے دیئے گیئے لیکن دیر میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ جب ریاست پاکستان نے مجاہدین کے ورثاء کیلئے فی شہید ایک ہزار روپیہ مقرر کیا تو نواب صاحب نے بہانہ کیا کہ معاوضہ کم ہے۔ اس طرح شہداء کے لواحقین کو ملنے والا یہ وظیفہ ملاکند پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس پڑا رہا اور سینکڑوں ورثاء اس بھاری وظیفے سے محروم رہ گئے۔ کشمیر کے لئے دیر کی عوام بڑی بے جگری سے لڑے۔ ایک طرف جدید ہتیاروں سے لیس تربیت یافتہ فوج تھی تو دوسری طرف یوبندے پیتے جیسے قدیم بندوقوں اور کلہاڑیوں سے مسلح دیر کا قبائلی لشکر تھا جس نے ہر محاذ پر بڑی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ قلیل تعداد اور تلواروں کلہاڑیوں کے مدد سے ایک تربیت یافتہ مسلح فوج سے میر پور سے لے کر نوشہرہ تک کا پورا علاقہ قبضہ کرنا معمولی بات نہیں ہے۔
کہانی 1947 میں ختم نہیں ہوئی بلکہ قربانیوں کا سلسلہ ابھی حال تک چل رہا تھا۔1947 میں شروع ہونے والے اس جنگ نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا۔ جنگ کشمیر میں ہورہی تھی لیکن بچے ہمارے مر رہے تھے۔ کشمیر کی کونسی گھاٹی کونسے پہاڑ، کس دامن میں دیر کا خون نہیں گرا ؟؟؟۔ آج ہمارے کشمیر کے بھائی ناراض ہیں، کہتے ہیں پاکستان نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا۔ ہمیں دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ کشمیر کے لوگوں اس جرم میں پاکستان کے ساتھ ساتھ ہم قبائلی برابر کے شریک ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بزرگوں نے سچے مسلمانوں کی حیثیت سے خالص اسلامی جذبۂ جہاد کے تحت استقلال، مردانگی اور جرأت کے ساتھ کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑی لیکن یہ ہماری غلطی تھی۔ کشمیر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور کشمیر کے درمیان دیوار بنانے میں جتنا کردار ریاست پاکستان اور ہندوستان نے ادا کیا ہے اتنا ہی کردار ہم دیر کے لوگوں نے ادا کیا۔ ضروری نہیں کہ میری بات صحیح ہو لیکن فرض کیجئے اگر دیر کا لشکر حملہ نہ کرتا، میرپور سے لے کر نوشہرے تک پورے علاقے پر قابض نہ ہوتے تو آج کشمیریوں کے درمیان ایل او سی نام کی یہ دیوار ہوتی ؟؟؟۔ اگر پورا کشمیر متحد ہوتا، آزاد اور مقبوضہ کے چکر سے آزاد تو کیا ہندوستان اتنی آسانی سے اس پر قابض ہوسکتا تھا ؟؟؟۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہو لیکن آج کل اس بندر بانٹ کو دیکھ کر اور پھر اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو دیکھ کر مجھے یہی لگتا ہے کہ ہم لوگ کرائے کے ٹٹو تھے، شروعات ہم نے خود کی بعد میں ہمیں استعمال کیا گیا۔ ہمیں شاپر کے طرح استعمال کیا گیا جب ضرورت ختم ہوئی تو ہمیں باہر پھینکا گیا۔ کل جس مٹی کے لئے ہمارے بزرگوں نے خون بہایا تھا جس کے لئے آج تک ہمارے جوان لڑ رہے تھے آج ریاست نے خوشی خوشی اسے دشمن کے حوالہ کیا۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو ہمارے لوگ کیوں شہید کئے گئے ؟؟۔ ہمارے بزرگ، ہمارے جوان کس مقصد کے لئے شہید ہوئے ؟؟۔ کل جو مشران اس پورے کھیل کو مقدس جہاد کا نام دے رہے تھے آج وہ خاموش کیوں ہیں ؟؟َ؟ ۔ کیا کل جہاد تھا اور آج نہیں ہے ؟؟؟۔ کشمیر کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور کشمیریوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں جتنا کردار پاکستان، ہندوستان نے ادا کیا ہے اتنا ہی اہم کردار ہم نے ادا کیا ہے۔ پاکستان، ہندوستان سمیت ہمارے بزرگ اور علماء بھی کشمیریوں کے مجرم ہیں ۔
No comments:
Post a Comment