شاہی قلعہ دیر
تحریر:-گمنام کوہستانی
ایک وقت تھا کہ آسمار افغانستان سے لے کر سخاکوٹ ملاکنڈ تک اس پورے علاقے پر اس قلعے کا راج چلتا تھا۔ وقت کے بڑے بڑے لوگ یہاں آنا اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے اور آج یہ حال ہے کہ دیر سے باہر کوئی اس کے بارے میں جانتا تک نہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق دیر خاص میں واقع شاہی قلعہ بدھ مت کے آثار پر تعمیر کیا گیا ہے۔ 1804 میں دیر خاص پر خان ظفر خان کے حملے سے پہلے یہاں کافرستان کے حکمرانوں کے رعبناک برج کھڑۓ تھے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ 1804 تک داروڑہ '' خان کس" تک کا علاقہ پشتون عملداری میں آتا تھا۔ داروڑہ سے آگے اس پورے علاقے میں براول ( براہول) سے لیکر کمراٹ تک اور لواری سے لیکر داروڑہ تک دارد کوہستانی آباد تھے۔ اس وقت دیر کوہستان کافرستان کا ایک اہم حصہ تھا۔ 1804 میں خان ٖظفر خان نے یوسفزیوں کے لشکر کے مدد سے دیر خاص پر حملہ کیا اور یہاں حکمران کوہستانی خاندان کو قتل کرکے مقامی دارد کوہستانی لوگوں کو کوہستان اور آس پاس کے دوسرے دروں میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ پرانے قلعے کو مسمار کرکے نیا قلعہ بنایا اور یہاں بیٹھ کر حکمرانی کرنے لگا۔ اس کے بعد جب نواب اورنگزیب حکمران بن گئے تو انہوں نے کشمیر سے کاریگر منگواکر جدید طرز کا محل بنایا۔ 1933 میں نواب شاہ جہان کے دور میں یہاں آگ لگی جس کے وجہ سے محل کا بیشتر حصہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوا۔ سلیمان شاہد اس بارے میں لکھتے ہے" مشہور روایت ہے کہ 1933 میں نواب شاہ جہان نے ایک بزرگ کو بے عزت کرکے محل سے نکالا، جیسے ہی وہ باہر نکلے دربار میں آگ لگ گئی اور آندھی چلنے لگی۔ محل کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھ کر سپاہیوں اور درباریوں کی دوڑیں لگ گئی۔ مرد و زن سب لوٹے مٹکے لئے دریا کی طرف دوڑے۔ پانی لاکر آگ پر ڈالا جا رہا تھا مگر شعلے تھے کی بلند ہو رہے تھے۔ نواب ایک طرف کھڑا "میخ زین" کو بچانے کیلئے پکار رہا تھا " ( گمنام ریاست حصہ دوم ص 73 )۔۔
خیر نواب صاحب نے "میخ زین" بچایا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن محل جل گیا۔ بعد میں ازسرنو تعمیر کے لئے اینٹوں کی بٹھیاں بنائی گئی، چونا جوغابنچ کی کانوں سے نکالا گیا جبکہ شیشہ، ہارڈ ویئر اور سینٹری کا سامان گران جان نامی شخص کے ہاتھوں ہندوستان سے منگوایا گیا۔ چھت ٹین کے چادروں سے بنائی گئی جبکہ عمارتی لکڑی کوہستان کے جنگلات سے لائی گئی۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ لکڑی راجکوٹ ( پاتراک) سے لائی گئی ہوگی کیونکہ کوہستانیوں نے نوابان دیر کو جتنی بھی لکڑٰی وغیرہ دی ہے وہ زیادہ تر گوالدی کے جنگلات سے کاٹی گی ہے۔ مستطیل شکل میں پھیلے ہوئے اس قلعے کے اندر دربار، شاہی محل، اسلحہ کارخانہ اور اسلحہ گودام واقع ہے۔ گودام کے متصل نواب صاحب کی ذاتی گاڑیوں کا گیراج ہے۔ شاہی محل دو حصوں پر مشتمل ہے۔ زنانہ و مردانہ ۔ دونوں حصے تقریباٰ ایک ہی طرز پر بنائے گئے ہیں۔ ایک حصہ نواب کی ذاتی رہائش گاہ تھی۔ اس دو منزلہ حویلی کی پہلی منزل پر چار بڑے ہال۔ ایک ویٹنگ روم، ایک ڈائیننگ ہال اور ایک گودام جبکہ دوسری منزل بھی کئی کمروں پر مشتمل ہیں۔ محل کے اندر گول ستونوں کے علاوہ بالکونیوں پر بھی عمدہ نقش نگاری کی گئی ہے۔ محل کے صدر دروازے پر دو توپیں نصب ہیں۔ یہ توپیں ڈیڑھ کلومیٹر تک گولہ پھینک کر دشمن کے قلعے کے مضبوط برج کو اڑانے کی صلاحیت رکھتی تھی جسے اسی قلعے کے اندر واقع اسلحہ کارخانے میں تور کابلے اور کابلے استاذ نام کے دو اسلحہ انجینیئرز نے بنایا ہے۔ دیر خاص میں ڈھلوان نما جگہ پر واقع اس گمنام قلعے کے بارے میں اگرچہ آج بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن اپنے عروج کے دنوں میں اس قلعے نے یہاں بڑے بڑے لوگوں کو سر جھکا کر بات کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ برٹش ہندوستان کو چترال تک رسائی کا مسلئہ ہو یا ریاست پاکستان سے الحاق کا مسلئہ اس قلعے میں بیٹھے ہوئے شخص نے ہندوستان، افغانستان اور انگلستان کے حکمرانوں کی نیندی اڑائی تھی۔
No comments:
Post a Comment