ڈاکٹر ربنواز، ایک قابل تقلید مثال
گمنام کوہستانی کے قلم سے
دوستوں!آئیے آج آپ کو اپنے علاقے ضلع دیر کوہستان کے ایک ایسے قابل فخر سپوت سے ملواتا ہوں، جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں حیرت انگیز علمی اور فنی مقام و مہارت حاصل کر لی ہےجی ہاں! حسب حالات پسماندہ ترین ضلع دیر کوہستان کے ایک غریب گھرانے کا چشم و چراغ ڈاکٹر ربنواز جنہوں نے ایک ایسے گھرانے اور ماحول میں آنکھ کھولی جہاں پسماندگی، غربت، اور محرومیوں کا راج تھا۔ والد صاحب سخت کڑی محنت و جفاکشی سے اپنے گھرانے کا پیٹ بمشکل پالتے تھے۔ ہر طرف اندھیرے اور مایوسیوں کے سائے تھے۔ ایسے ماحول میں ربنواز پلے بڑھے اور ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے آبائی گاوں کی پرائمری سکول ( دون سیری ) اور باسیلقہ والدین سے پاتا رہا۔ مڈل کلاسوں کی تعلیم بھی کلکوٹ ( دیر کوہستان ) کے ھائی سکول سے پائی اور میٹرک کےلئے انتہائی مشکل حالات میں قریبی ضلع بونیر کے مکتبوں کی خاک چھان کر امتیازی سند سے پاس کرلی۔ جس کے بعد انٹر وغیرہ سوات سے کرکے سال 2003 تا 2008ء کے عرصے میں ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، 2009 میں ایک سالہ ہاوس جاب اور ساتھ ساتھ 2010 میں FCPS پارٹ ون کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 2015 میں Pakistan Institute of Medical Sciences سے سپشلائیزیشن کیا اور 2016 میں FCPS-II کا امتحان پاس کرلیا۔ ڈاکٹر صاحب نے Endocrinology میں دوسری بار سپشلائیزیشن کرکے پورے ملاکنڈ ایجنسی کے پہلے ڈبل سپشلائیزیشسٹ ڈاکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے بطور رجسٹرار شعبہ Endocrinology لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور اور مشہور زمانہ Northwest Hospital Peshawar میں پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دئ ۔ پشاور میں اس وقت صرف چار ڈاکٹر ایسے ہے جنہوں نے ذیابیطس اور endocrinology میں سپشلائیزیشن کیا ہے اور ان میں سے ایک ہمارا بھائی ڈاکٹر ربنواز بھی ہے ۔ آج کل موصوف District Specialist Hospital واڑی دیر بالا میں ڈیوٹی پر تعنیات ہیں اور دن رات اپنے پسماندہ اور غربت کے شکار لوگوں کی مسیحائی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔
سوچئیے ایک پسماندہ ترین علاقہ جہاں پیٹ پالنے کے علاوہ انسان کو نہ کسی چیز کا شعور ہوتا ہے نہ فراغت وہاں انسانی زندگی جبر مسلسل کا نام ہوتا ہے اور جہاں غم روزگار کے سوا حیات کی کوئی مقصدیت نہیں ہوتی ہے۔ ایسے میں کسی گھرانے میں بیٹے کی پیدائش پر اس لئے شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ اب یہ بڑا ہوکر اپنے والد کا دست و بازو بنے گا اور گھرانے کی آمدن و خوشحالی کےلئے ایک محنت کش کا اضافہ ہوجائے گا۔ وہاں تعلیم، تربیت، فن و مہارت لایعنی کام اور امیروں کے مشغلے سمجھے جاتے ہیں وہاں سے ربنواز جیسے اولولعزم نوجوان کا حصول علم و فن کےلئے اٹھنا، محنت کرنا، سختیاں جھیلنا اور ساتھ سماج کے طنز و طعنے سہنا کس قدر دشوار کام ہوتا ہے۔ مگر آفرین ربنواز کے والدین پر جنہوں نے اپنے اس بیٹے کو دیگر ہزاروں نوجوانوں کی طرح پیٹ پوجا کا غلام نہیں بنایا نہ اسے گھر کے چولہے کا ایندھن بننے دیا بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اسے علم کی روشنی سے منور کیا اور آفرین ربنواز کی محنت، عزم، حوصلے اور استقلال کےلئے کہ جس نے ان حالات میں بھی مایوسی کا پردہ چاک کرکے اپنے احساس و شعور کے تحت حصول علم و عمل کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور بالآخر بین الاصوبائی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔
آج پورے دیر کو بالخصوص اور پورے ملاکنڈ ڈویژن و صوبہ خیبرپختونخواہ کےلئے بالعموم وہ قابل فخر و لائق تحسین ہیں اور ان کی زندگی و محنت تمام پسماندہ کوہستانی نوجوانوں اور ان کے غریب والدین کےلئے مشعل راہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مسیحائی خدمات کے ثمرات اب بیمار انسانیت کے ساتھ پورے بیمار، پسماندہ سماج میں جان ڈال رہی ہے۔ اور اس پر خدا تعالی، اس کے والدین اور خود انہیں جتنی داد و ہش دی جائے کم ہے۔