بسنو آیان
بالائی پنجکوڑہ اور کالام سوات کے دروں میں آباد داردی قبائل کو گاوری کہا جاتا ہے۔ شمال میں آباد دوسرے داردی قبائل کی طرح ماضی میں ان لوگوں کی اکثریت بھی اپنے قدیم دستور یا مذہب ( داردی مذہب جس میں مناظر قدرت اور مختلف قسم کے دیوں دیوتاؤں وغیرہ کی پوجا کیجاتی تھی۔ آج کے کلاشہ ( کاسیوا) مذہب قدیم داردی مذاہب کی آخری نشانی ہے) پر عمل کرتے تھے۔ ماضی میں یہ لوگ بھی آس پاس موجود دوسرے داردی قبائل کی طرح ہندوکش کے میدانی علاقوں( سوات، دیر باجوڑ وغیرہ) میں آباد تھے جہاں سے انہیں پہلی بار اس وقت بے دخل ہونا پڑا جب ان کے آخری راجہ گیرا یا گرا کو محمود غزنوی کے لشکر نے پیر خوشحال کے سربراہی میں گیارہویں صدی میں شکست دی اور راجہ گیرا اپنے اہل و عیال سمیت بالائی پنجکوڑہ کے وادیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔ دوسری بار ان قبائل کو اس وقت اپنے گھر بار کو چھوڑنا پڑا جب پندرہویں صدی میں کابل کے مغل بادشاہ الغ بیگ نے یوسفزئی قبائل کو کابل سے بے دخل کیا اور یہ قبائل پشاور سے ہوتے ہوئے پہلے ہشنگر ( اشنغر) اور پھر سوات و دیر پر ملک احمد خان نام کے سردار کی سربراہی میں حملہ آور ہوئے۔
ہندوکش کے دروں میں آباد ان داردی قبائل کو تاریخ میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے جن میں دارد، درادی، دادیکی، سفید پوش کافر، سرخ کافر، سیاہ پوش کافر، ڈوما کافر سمیت ہندوراجی، تاجیک( میجر راورٹی نے ان داردی قبائل کے ہم نسل چترال میں آباد کھوار سمیت دوسرے داردی قبائل، کونڑ، باجوڑ اور لام گھان ( لمغان) میں آباد پشائی قبائل اور بالائی سوات میں آباد توروالی اور گاوری قبائل کو بھی تاجک لکھا ہے حالانکہ یہ لوگ داردی زبانیں بولتے ہیں۔ پشتون تذکرہ نویسوں نے گبری سلاطین کو بھی تاجک لکھا ہے۔ اور آج کل تو کچھ لوگ انہیں سواتی پٹھان بھی کہتے ہیں لیکن نہ وہ لوگ پٹھان تھے اور نہ وہ پشتو بولتے تھے بلکہ وہ گبری زبان بولتے تھے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے میجر راورٹی کی کتاب۔ نوٹس آن افغانستان اینڈ بلوچستان، ) اور کوہستانی نام قابل ذکر ہے جبکہ ان کے وطن کو داردستان، بولورستان اور یاغستان ( وہ علاقہ یا قبائل جو کسی مرکزی حکومت کے بغیر اپنے مقامی دستور کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں ) کوہستان اور کافرستان کے نام سے یاد کیا ہے۔ افغان قبائل یا دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کے حملے کے وقت ان قبائل کی اکثریت اپنے قدیم مذاہب پر عمل کرتی تھی
اس لئے انہوں نے ان قبائل کو کافر اور ان کے علاقے کو کافرستان کا نام دیا۔ کافرستان کے حدود کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہے بلکہ افغان قبائل کے حملوں کے وجہ سے اس کے جغرافیہ میں تبدیلی ہوتی رہی۔ اپنے عروج کے دنوں میں کافرستان گلگت بلتستان سے لے کر لام گھان ( لمغان) تک اور دوسری طرف ملاکنڈ سے لے کر بدخشان تک پھیلا ہوا تھا لیکن افغان قبائل کے حملوں کے وجہ سے اس یہ سکڑتا رہا یہاں تک کہ 1804 میں دیر خاص پر یوسفزئ قبائل کے حملے اور 1895 میں کافرستان کے آخری حصے ( کام دیش، باشگل، وائی گل،براگمٹال اور پارون سمیت ملحقہ وادیون بشمول اپر یا بالائی کونڑ ) پر امیر افغانستان نے حملہ کیا اور اسے نورستان کا نام دے کر وہاں موجود داردی قبائل کو مسلمان کیا۔
گیارہویں صدی اور بعد میں پندرہویں صدی میں بالائی پنجکوڑہ پہنچنے والے داردی قبائل کی اکثریت گاوری قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ مورخین نے ان قبائل کو گاوری، گوری، گوار، گباری، گبری اور بشکاری کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بالائی پنجکوڑہ اور آس پاس موجود دوسرے دروں میں آباد داردی قبائل سب کے سب گاوری نہیں ہے بلکہ یہاں پلولہ یا عشریتی قبائل سمیت کلکوٹئ قبائل بھی رہتے ہیں لیکن ان میں گاوری یا گورین قبائل اکثریت میں ہے۔ کالام یا سوات کے بالائی وادیوں میں آباد گاوری قبائل کی اکثریت دیر سے براستہ باڈگوئی پاس یا اس کے قریب موجود بٹل پاس سے ہوتے ہوئے گئے ہیں اور بقول محمد زمان ساگر صاحب کے ان قبائل نے اسلام یہاں سوات میں قبول کیا ہے۔
ماضی میں گاوری قبائل بھی اپنے اس پاس موجود دوسرے داردی قبائل کی طرح مختلف قسم کے تہوار مناتے تھے۔ ان تہواروں میں موسمی تہوار اور مذہبی تہوار دونوں شامل تھے۔ آج اگرچہ ہم ان تہواروں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے لیکن مقامی سفید ریش بزرگوں سے کچھ تہواروں کے نام سنتے ہیں جو ماضی قریب تک یہ قبائل مناتے تھے بلکہ ان میں بعض ایسے تہوار بھی تھے جو قبول اسلام کے بعد بھی یہ لوگ مناتے تھے۔ ان تہواروں میں بسنو آیان، شاری آیان، خائے یوسف، سی داگ، برات، لوک خار، گھان شاخو خار وغیرہ کے بارے میں ہم تھوڑا بہت جانتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرت بلال نے اپنی کتاب " دیر کوہستان ایک تعارف" میں ان تہواروں کے بارے میں مختصر لکھا ہے۔ بسنو آیان موسم بہار کے خوش امید کہنے کا ایک تہوار تھا۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ آخری گبری سلطان اویس کو 1542 عیسوی میں نہاگ درہ میں بسنو آیان کے تہوار کے ہی موقع پر یوسفزئ قبائل نے حملہ کرکے مارا تھا۔ سلطان اویس سوات پر یوسفزئ کے حملے کے بعد نہاگ درہ آیا تھا جہاں اس وقت داردی قبائل رہتے تھے۔ پنجکوڑہ کے اس حصے تک اس وقت یوسفزئ قبائل نہیں پہنچے تھے بلکہ 1804 تک داروڑہ سے اوپر کے علاقے میں پشتون نہیں پہنچے تھے یہاں داردی یا آج کے کوہستانی قبائل رہتے تھے اور ان لوگوں کی اکثریت اس وقت غیر مسلم یعنی کافر تھے۔ اسی وجہ سے اس وقت تک دیر کافرستان کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا۔
ماضی میں چونکہ ہندوکش کے ان دروں میں بہت زیادہ برفباری ہوتی تھی اور سردی آج کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوا کرتی تھی یہاں تک بعض اوقات مکئی کی فصل تک نہیں پکتی تھی تو مقامی لوگ لو، بھرو، ہیلور اور منی نام کے بعض فصلیں کاشت کرتے تھے جو سخت سردی میں بھی تیار ہوتی تھی۔ اس وقت موسم سرما میں یہ علاقے کسی سرد جہنم سے کم نہیں تھے اس لئے لوگ سرما کے گزرنے اور موسم بہار کے آنے کی خوشی میں بسنو آیان منایا کرتے تھے۔ ابھی اس بات پر بحث کرنا کہ یہ قبائل اس تہوار کے موقع پر کس دیوی یا دیوتا کو بھینٹ بھی چھڑاتے تھے قبل از وقت ہوگا لیکن ہم اتنا یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ بانسری اور ستار کے دھنوں اور ڈھول کے تاپ پر رقص کرتے( اس وقت یہاں رقص عبادت اور موسیقی مقدس ہواکرتی تھی) اور گوشت، دودھ سے بنی مختلف قسم کے کھانوں کا ضیافت اڑاتے تھے۔ قبول اسلام کے بعد بھی بسنو آیان کا تہوار منایا جاتا تھا بلکہ بعض سفید ریش بزرگوں کے بقول ماضی قریب تک یہ تہوار یہاں منایا جاتا تھا۔ اس وقت یہاں جو اسلام تھا یا دوسرے الفاظ میں اسلامی مبلغین تھے وہ رواداری کے قائل تھے۔ بعد میں جب نئے لوگ نئے سوچ کے ساتھ آئے تو یہاں آباد گاوری قبائل کی ماضی کی تمام رسومات اور نشانیاں کافروں کی نشانی قرار دی گئی یہاں تک کہ پرانے زمانے کے کھنڈرات تک مسمار کئے گئے۔ مقامی گاوں دیہاتوں کے نام جو داردی زبانوں میں تھے انہیں تبدیل کیا گیا۔ یوں آہستہ آہستہ مقامی گاوری قبائل اپنے شاندار ماضی کو بھولتے گئے آج یہ حال ہے کہ ماضی کے یہ شاندار تہوار وغیرہ بھولی بسری یادیں بن گئے ہیں۔
ایک سال پہلے میں نے کچھ مقامی دوستوں کی مدد سے گاوری قبائل کی اس تہوار کو منانے کی کوششیں کی لیکن کچھ مقامی مولویوں نے وہی کافر کا ٹپہ لاکر مجھے روکا۔ حالانکہ یہ موسمی تہوار ہے نہ کہ مذہبی اور اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو اسلام سے متصادم ہو۔ یہ سیدھا سادہ ایک موسمی تہوار ہے جس میں مقامی کھیلوں سمیت مقامی کھانے اور مقامی موسیقی وغیرہ شامل ہیں۔ ابھی موسم سرما ہے بہار تک کافی وقت ہے۔ اگر کوہستان دیر کے بزرگ اجازت دے تو ہم آنے والے موسم بہار میں اپنے ماضی کے اس خوبصورت تہوار کو دوبارہ منا کر زندہ کر سکتے ہیں۔ یہ ہم کمراٹ یا جاز بانال کے میدانوں یا کوہستان دیر کے کسی اور علاقے میں منا سکتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ اور محکمہ سیاحت سے بات کرنا یا ان سے کام لینا میری ذمہ داری ہے۔ کئی دوست ایسے ہیں جو دل جان سے ہماری مدد کریں گے۔ اس سے ایک طرف اگر ہمارا ایک قدیم تہوار زندہ ہوجائے گا تو دوسری طرف سیاحوں کے آنے سے مقامی لوگوں کو دو چار روپے بھی مل جائیں گے۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ یہ ہماری دھرتی ہے ہمارا دارد دیسا ہے ہم یہاں جشن کمراٹ تو منا سکتے ہیں، کمراٹ کے گھنے جنگلوں میں پشتو اور ہندی گانے تو بجا سکتے ہیں لیکن اپنے تہوار جو ہماری پہچان ہے نہیں منا سکتے اور نہ مقامی موسیقی سن سکتے ہیں۔
ہم گاوری ہے گاوری پشتون نہیں۔ جس طرح ہم پشتونوں سے مختلف زبان بولتے ہیں اسی طرح ہمارا کلچر بھی ان لوگوں سے مختلف تھا لیکن وقت کی جبر نے ہم سے ہمارا زرخیز زمینوں سمیت خوبصورت کلچر شناخت وغیرہ سب چھین لئے ہیں سوائے زبان کے۔ اور صرف زبان کے سہارے کوئی بھی قوم قبیلہ اپنی شناخت برقرار نہیں رکھ سکتا جب تک وہ اپنے مقامی ثقافت پر عمل نہ کریں۔ میرے راج میر ابھی وقت ہے لوٹنے کا، اپنے اصل کے طرف لوٹنے کا کیونکہ ابھی جو سیلاب آ رہا ہے وہ گیارہویں اور پندرہویں صدی کے سیلاب سے بھی زیادہ تباہ کن ہے۔ اگر ابھی نہ لوٹے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم بھی بسنو ایان کی طرح بھولی بسری یادیں بن جائیں گے۔
ہم گاوری ہے گاوری پشتون نہیں۔ جس طرح ہم پشتونوں سے مختلف زبان بولتے ہیں اسی طرح ہمارا کلچر بھی ان لوگوں سے مختلف تھا لیکن وقت کی جبر نے ہم سے ہمارا زرخیز زمینوں سمیت خوبصورت کلچر شناخت وغیرہ سب چھین لئے ہیں سوائے زبان کے۔ اور صرف زبان کے سہارے کوئی بھی قوم قبیلہ اپنی شناخت برقرار نہیں رکھ سکتا جب تک وہ اپنے مقامی ثقافت پر عمل نہ کریں۔ میرے راج میر ابھی وقت ہے لوٹنے کا، اپنے اصل کے طرف لوٹنے کا کیونکہ ابھی جو سیلاب آ رہا ہے وہ گیارہویں اور پندرہویں صدی کے سیلاب سے بھی زیادہ تباہ کن ہے۔ اگر ابھی نہ لوٹے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم بھی بسنو ایان کی طرح بھولی بسری یادیں بن جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment