Thursday 29 November 2018

NOW WHERE RAJMIR HAVE TO GO BY GUMNAM KOHISTANI

اس بار کیا ہوگا، اب کہ بار راج میر کہاں جائیگا ۔۔۔؟؟
kumrat valley, #kumratvalley #kumrat #valley #how_to_reach_kumratvalley
#kurmatvalley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat_valley #hotelsInKumratvalley #hotels_in_kumrat #hotelInKumrat #howtoreachkumrat
#kumrat_vally_hotels #best_hotel_in_kumratvalley #facilities_in_kumaratvalley
#tourism_in_pakistan #tourism_in_kp #hotels #kumrat #BestSportKumrat #map_of_kumrat #map_of_kumratvalley
#KalamToKumat #Utrorvalley #BadgoyePass #BadgoyeTop #Dasht_e_Laila #Mahodand #mom_tuch_Hotel_kumrat #Hotel_grand_palace
#HowToReachKumrat #Local_Transport_to_Kumratvalley #Local #Transport #kumrat #KundBanda #kunrBanda 
#JehazbandaHotel #Hotels_in_Jehazbanda #RouteToJehazbanda #KumratWaterfall #Kumrat_Forest #tourism
#KumratValleykpk #kumrat #kpk #gilgitbaltistan #Pakistan #kkh #karakoramhighway #roadadventure 
#roadtrip #attabadlake #baldiyaat #lakelovers #hiking #hunzavalley #travelphotographer 
#travelphotography #instatravel #mountain #mountainscape #wanderer #Wanderlust #agameoftones 
#trekking #adventure #artofvisuals #beautifuldestinations #beautifulpakistan #northernareaofpakistan 
#instadaily #dailykumrat #daily_Kumrat #kumratnews #kumrat_news #Takki_Banda #takki #kundbanda #hotels_in_Jehazbanda 
#map_of_kumrat #map_of_jehazbanda #jazzbanda #JandriValley  #Gamseer #Dankar #TakkiTop #JehazBanda 
#tourism_in_pakistan #tourist #touristme #toruists #travel_to_Naran #Travel_to_Kaghan
#Nathiagali #route_to_swat #tour_to_kalam #tour_to_malamjabba #tour_to_Mahodand
#mootles #toruismkp #kptourism #tourismMe #Hotel_Mom_Touch
#islamabad_to_kumrat_valley #kumrat_valley_from_swat #kumrat_valley_weather
#kumrat_valley_hotels #kumrat_valley_district #kumrat_valley_map #kumrat_valley_distance
#kumrat_valley_pics #KumratValleyDistance 
#FamilyTimeMostPreciousTime
#KhyberPakhtunkhwa #KuttonWaterfall 
#music #pakistantraveldiaries #kumratvalley 
#Kumrat_Forest #snowfall #Kumrat 
#nature #naturephotography #tours #tourism #KPTourism
#pakistantourism

گمنام کوہستانی کی قلم سے
یہ گیارویں عیسوی ہے۔ سوات اور دیر زیریں میں ہر طرف افراتفری کا سماں ہے۔ محمود غزنوی کے فوج نے حملہ کیا ہے۔ مقامی لوگوں کو شکست ہوچکی ہے اور ان کا مضبوط قلعہ دشمن کے قبضے میں جا چکا ہے۔ ان کے فوج کا بھی صفایا ہو چکا ہے۔ غزنوی کے سپہ سلار پیر خوشحال کا حکم ہے کہ جو اسلام قبول کرے اسے امن سے رہنے دیا جائے گا اور جو اسلام کے وحدانیت پر یقین نہیں کرے گا وہ قتل ہوگا۔ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ کیسے اسلام ہمارے دین سے بہتر ہے۔ صدیوں سے رائج روایات، رسوم رواج اور مذہبی قوانین یک لخت کیسے چھوڑ دیں گے، عام آدمی شش و پنج میں ہے کس کی سنے، حملہ آوروں کی یا اپنے بزرگوں کی جنہوں نے وراثت میں دوسری چیزوں کے ساتھ مذہب بھی چھوڑا ہے۔ لیکن اس افراتفری کے موقع پر کس کے پاس وقت ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتائے۔ پیر خوشحال اور دوسرے رہنماء دوسرے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عام سپاہی لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتانے کے بجائے تلوار لہرا کر اسلام قبول کرنے کا کہہ رہا ہے۔ غزنوی کے لشکر جرار کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے، اس لئے جو بھاگ سکتے ہیں وہ بھاگ رہے ہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہندوکش کے برف پوش پہاڑوں کے طرف کوچ کر رہے ہیں۔ ان میں راج میر بھی ہے۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ دیر کی طرف بھاگ رہا ہے۔۔۔
یہ سولہویں صدی عیسوی ہے۔ راج میر سوات سے بھاگ کر دیر کے اس دشوار گزار اور برف پوش علاقے میں اپنی فیملی اور دوسرے ہم نسل لوگوں کے ساتھ رہ رہا ہے۔اس کے دوسرے ہم قوم دور بہت دور نانگا پربت کے دامن میں آباد ہوگئے ہیں ، تو کچھ ترچ میر کے سائے میں ۔ مغرب کے طرف بہت کم لوگ بھاگے تھے، جو تھوڑے بہت گئے تھے اب وہ کامدیش، گور دیش اور کنڑ کے آس پاس اباد ہیں ۔ راج میر جس علاقے میں رہتا ہے، اسے سرد جہنم کہا جاتا ہے، بہت سردی ہے جس کی وجہ سے بہت کم رقبے پر مکئی کاشت کیجاتی ہے۔ اس لئے آٹا بہت کم یاب ہے۔ لوگ دودھ دہی، پنیر اور پھل فروٹ پر گزارہ کر رہے ہیں۔ زندگی بہت مشکل سے گزر رہی ہے لیکن اس بات کا اطمینان ہے کہ یہاں کسی حملہ آور کے آنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن پرہرہ داری برابر سے کیجاتی ہے ، اونچے جگہوں پر گاوں آباد کئے گئے ہیں ، کسی بھی ہنگامی حالت میں دن کے وقت دھواں اور رات کے وقت آگ سے سگنل دئے جاتے ہیں ۔۔۔۔
یہ سترویں صدی کے آس پاس کا دور ہے۔ آخون سالاک نام کا ایک مذہبی رہنماء مجاہدین کے ایک گروپ کے ساتھ راج میر کے علاقے میں آیا ہے۔ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ دین حق قبول کرو زندہ رہوگے ورنہ موت تمہارا مقدر ہے۔ لوگ ایک بار پھر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ رہے ہیں، اب کی بار ان کی منزل خزان کوٹ کا علاقہ ہے۔ دو ندی کے بیچوں بیچ یہ جگہ چھپنے کی بہترین جگہ ہے۔ لوگ خزان کوٹ پہنچ کر وہاں نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ گاوں تو مجاہدین کے قبضے میں ہے اس لئے یہاں پھل فروٹ اور اخروٹ کے درخت لگائے جاتے ہیں، زندہ رہنے کے لئے اب ان چیزوں پر انحصار کرنا ہوگا۔ راج میر کچھ سال وہاں گزارتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی اس لئے یہاں بھی آخون سالاک بابا اپنے خاص مرید میاں عثمان کے ساتھ پہنچ جاتا ہے۔ راج میر کا قبیلہ حیران ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ سامنے بتوٹ کے میدان میں دشمن اور پشت پر برف پوش پہاڑ جنہیں اس حال میں کہ پیچھے دشمن تعاقب میں ہو پار کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ لوگ جنگ کی تیاری کرتے ہیں اور بتوٹ کے میدان میں دونوں لشکروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے، ایک طرف مضبوط لوہے کی تلواریں اور تیر کمان ہیں جبکہ دوسری طرف کا سندر کے لکڑی سے بنائے گئے نیزے اور ٹوٹی پھوٹی کلہاڑیاں ہیں۔ دونوں لشکر ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں اور راج میر کے لوگ شکست کھا کر پسپا ہو رہے ہیں، مخالف لشکر کے سپاہی ایک ایک کو پکڑ کر مار رہے ہیں۔ جو بھاگ سکتے ہیں وہ جنگلوں میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں، بچے بوڑھے مرد عورت سب بھاگ رہے ہیں کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔زیادہ تر مارے جا چکے ہیں ، گنتے کے کچھ لوگ بچ گئے ہیں( وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ کچھ کو زندہ چھوڑا ورنہ آج راج میر کی نسل بھی ریڈ اینڈیز کی طرح عنقا ہوجاتی ) جن کو پکڑ کر امیر لشکر کے سامنے لایا جا رہا ہے۔ تین بندے ابھی تک غائب ہیں۔ ایک مرد اور دو عورتیں، مرد کا نام کاشکین ہے۔ امیر صاحب کہہ رہا ہے فکر کی کوئی بات نہیں اس جنگل سے وہ کہاں جا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ کاشکین چترال کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور دونوں عورتیں جنگل میں ہی مرگئی ہیں۔ بچے ہوئے سب لوگوں کو مسلمان کیا جا چکا ہے۔ سپہ سلار نے لوگوں کو گاوں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ راج میر ایک بار پھر اپنے لئے گاوں میں گھر بنا رہا ہے۔
یہ آٹھارویں صدی ہے۔ دیر کے تقریباً زیادہ تر لوگ مسلمان ہوچکے ہیں لیکن حکمران طبقہ ابھی تک غیر مسلم ہے۔ یہ حکمران طبقہ پتہ نہیں کیسے آخون سالاک بابا سے بچ گیا ہے۔ آخون سالاک بابا کا انتقال ہو چکا ہے۔ مسند اقتدار پر اب خان ظفر خان براجمان ہے۔ داروڑہ شاکس سے اوپر کے علاقے پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس لئے تقریباً 1804 کے قریب وہ دیر خاص پر حملہ کرکے شاہی قلعے کو تہس نہس کر دیتا ہے حکمران طبقہ شکست کھا کر نامعلوم علاقے کے طرف بھاگ جاتا ہے۔ خان صیب دیرخاص میں ایک مضبوط قلعہ بنا کر اسے اپنا درالحکومت قرار دیتا ہے۔ لیکن راج میر پر اس تبدیلی کا کوئی اثر نہیں پڑا وہ ان سب سے لاتعلق اپنے لوگوں کے ساتھ اپنے علاقے میں رہتا ہے۔ زندگی بغیر کسی ہلچل کے گزر رہی ہے۔ لوگ پرانے واقعات کو بھول کر نئی زندگی شروع کر چکے ہیں۔ کچھ عرصہ یونہی امن و امان سے گزرتا ہے لیکن ایک بار پھر راج میر کے قوم کو جنگ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 1891( بحوالہ دیر کوہستان ایک مختصر تعریف ،، صفحہ نمبر 41 ) کے آس پاس کا واقعہ ہے جندول سے عمراں خان نام کا ایک بندہ اپنے لشکر کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے اس نے چترال، آسمار اور اس کے پاس کے علاقے میں لشکر کشی کرکے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا ہے۔ لیکن راج میر کے علاقے میں اس کی موجودگی اسلام کے وجہ سے نہیں ہے کیونکہ راج میر کے لوگ اب مسلمان ہیں۔ اس نے دیر کے خان جنہیں اب نواب کہا جاتا ہے کے راج پر قبضہ کیا ہے اور اسے سوات بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ راج میر کا دیر کے نواب یا دیر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے اس وقت تک گلوبل وارمنگ کے وجہ سے موسم تبدیل ہو چکا ہے، اب سال میں ایک فصل آسانی سے تیار ہوتی ہے، اور راج میر کا علاقہ نواب کے پورے راج میں سب سے زرخیز علاقہ ہے، اس لئے عمراں خان نے حملہ کیا ہے، اب جنگ مذہب کے نام پر نہیں ہے بلکہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے۔ راج میر جانتا ہے کہ گیارویں عیسوی سے جاری اس جنگ کا مقصد مذہب کی ترویج نہیں ہے بلکہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے۔
ایک بار پھر راج میر اور ان کے لوگ جنگ کے لئے تیاری کرتے ہیں، اس دوران راج میر کے آس پاس بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے، راج میر کے زیادہ تر لوگ اب کوہستانی نہیں رہے، انہیں اب پشتون بنایا گیا ہے، گاوری جو راج میر کی مادری زبان تھی وہ لوگ بھول چکے ہیں اور غور کرنے سے بھی وہ لوگ کہیں سے بھی داردی گاوری نہیں لگتے۔ راج میر کے لوگ اب اقلیت میں ہیں اور ایک مخصوص علاقے میں محدود ہوکر رہ رہے ہیں۔ جسے کوہستان کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا جاتا اگرچہ اب بندق کی جنگ ختم ہوچکی ہے لیکن جنگ ابھی بھی جاری ہے، راج میر کے آبائی علاقوں کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں، جار کو بیاڑ نام دیا جاتا ہے اور راجکوٹ کو پاتراک کہا جاتا ہے۔ خود راج میر کے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے تین حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ایک حصہ سوات کے علاقے کالام اور آس پاس کے وادیوں میں رہتا ہے اور ایک حصے نے کاش دادا کی راستے پر چلنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کاشکین پاس کے راستے چترال چلے گئے ہیں۔ چترال جانے والے گاورین نے تو پیچھے کی کوئی خبر نہیں لی لیکن راج میر کے بزرگوں نے انہیں الگ شناخت دیکر انہیں یاد رکھا ہے۔ انہیں موسینگور کہا جاتا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ لوگ چترال میں کہاں رہتے ہیں، البتہ سوات جانے والوں کے ساتھ ابھی بھی راج میر کا رابطہ ہے، جنگ سر پر پہنچ گئی ہے۔ عمران خان نے جٹکوٹ کے مقام پر مقامی داردی لوگوں کو شکست دی ہے اور راستے میں آنے والے ہر گاوں مسجد سمیت مسمار کرکے وہ اب تھل پہنچ چکا ہے۔ تھل کا کونڈ شئی میدان ہے، راج میر کے ساتھ سوات سے آنے والے بھائی بھی اس جنگ میں شریک ہیں، دونوں لشکروں میں زوردار جنگ چھڑ جاتی ہے لیکن کہاں تھوڑے دار بندوق اور کہاں برٹش آرمی کے جدید رائفلیں اس لئے بہادری سے لڑنے کے باوجود راج میر کو شکست ہوجاتی ہے۔ جنگ ختم ہوجاتی ہے اور راج میر کا علاقہ جس پر ابھی تک نواب آف دیر کا قبضہ نہیں کرسکا تھا اب عمران کے راج میں شامل ہوجاتی ہے۔ عمران واپس جاتا ہے اور پھر سب سے بڑے نواب یعنی انگریز اسے چترال پر فوج کشی کی سزا دے کر اسے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے۔ نواب دیر بڑے نواب کے رحم کی وجہ سے دوبارہ دیر پر راج کرتا ہے۔ وقت گزرتا ہے اور راج میر کے ساتھ اس کے لوگ بھی سب کچھ بھول ایک بار پھر زندگی کے سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ مگر نواب بہت ظالم ہے۔ نواب کے بیگار بہت ہیں اور اوپر سے ہر سال ہر گھر سے نواب کو خراج دیا جاتا ہے۔ جسے محصول کہا جاتا ہے۔ لیکن راج میر خوش ہے کہ جو بھی ہے لیکن کم سے کم زندہ رہنے کا حق تو ملا ہے۔ کچھ عرصہ گزر جاتا ہے پھر ایک دن خبر آتی ہے کہ پاکستان نام کا کوئی ملک بنا ہے اور اس نے دیر کے نواب کو ہٹا کر راج میر کے علاقے کو آزاد کرایا ہے۔ سب خوش ہیں کیونکہ ظالم نواب اب اور ظلم نہیں کرسکتا اور وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ وقت گزرتا ہے۔ زندگی رواں دواں ہے، زندگی امن و شانتی کے ساتھ گزر رہی ہے۔ راج میر کے علاقے کو اب دیر میں ایک خاص مقام حاصل ہے، ماضی کا سرد جہنم اب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے خوبصورت جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس طرح وقت گزرتا ہے کہ اچانک ایک بار پھر میدان جنگ کا طبل بج جاتا ہے، یہ 1974 کے قریب کا زمانہ ہے۔ راج میر حیران ہے کہ اب کی بار مدمقابل کون ہوگا اور کیوں۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا نواب اب کی بار میدان جنگ سجا رہا ہے۔ اور اب کی بار نشانہ راج میر اور آس پاس بسے دوسرے قوموں کے جنگلات ہیں۔ راج میر ایک بار پھر اپنے اسلحے کو صاف کرتا ہے اور میدان جنگ کے طرف روانہ ہوجاتا ہے۔ اس بار ماضی کے دشمن بھی راج میر کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، سب کی خواہش ہے بھٹو نام کے اس نواب سے اپنے جنگلات بچانا ہے، اس لئے سب جی توڑ کر لڑتے ہیں۔ بھٹو کو شکست ہوجاتی ہے اور راج میر کے لوگوں اور بھٹو کے درمیان ایک معاہدہ ہوجاتا ہے جس کے رو سے راج میر کے علاقے کے جنگلات اور سرسبز چراگاہوں پر راج میر کے لوگوں کا حق ہوگا۔ اسی طرح ہر علاقے پر وہاں کے مقامی لوگوں کا حق مانا جاتا ہے۔ دشمن جاچکا ہے اور زندگی ایک بار پھر گنگنا رہی ہے۔ وقت گزرتا ہے اس دوران راج میر اور آس پاس کے دوسرے غیر داردی قبائل میں رشتے ناطے ہوچکے ہیں اور پورے علاقے میں امن و ومان ہے۔ زندگی گزر رہی ہے، لوگ ماضی کو بھول چکے ہیں۔ ماضی کی سب واقعات اب کہانیاں لگتی ہیں۔ راج میر کا علاقہ اب اپنا الگ پہچان بنا چکا ہے، ملک بھر سے ہر سال لاکھوں لوگ راج میر کے جنت کو دیکھنے آتے ہیں۔ راج میر کے لوگوں نے بھی ہر علاقے کو مختلف داردی قبائل میں تقسیم کیا ہے اور لوگوں نے ہوٹلز بناکر دوچار روہے کمانے شروع کئے ہیں۔ سب خوش ہیں کہ کراچی کے چوکیداری سے نجات مل گئی اور گھر میں دو پیسے کمانے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن یہ کیا ایک بار پھر کچھ لوگ آتے ہیں اور راج میر سے علاقہ خالی کرنے کو کہتے ہیں، اب کی بار نواب صیب کا پلان کسی نیشنل پارک بنانے کا ہے۔ راج میر حیران ہے کہ نیشنل پارک کیا ہے؟ وہ لوگوں سے پوچھتا ہے لیکن کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔ پیغام لانے والے بھی بس اتنا جانتے ہیں کہ نیشنل پارک بن رہا اس کے علاوہ وہ بھی کچھ نہیں جانتے۔ راج میر حیران ہے کہ اگر نیشنل پارک بن گیا تو اس کے مویشیوں کا کیا ہوگا۔ سال کے سات مہینے وہ پہاڑ جہاں نیشنل پارک بنایا جائے گا وہاں رہتا ہے، وہ سات مہینے کے محنت سے گھی دودھ اور دوسری کھانے کے چیزیں بنانے کے بعد اسے بیچ کر دو چار روپے کماتا ہے، یہ جنگل اس کےلئے سب کچھ ہے، سردیوں میں اس کی لکڑی جلا کر وہ اپنے فیملی کو سردی سے بچاتا ہے۔ اس جنگل کے گھاس اور پتے سریوں میں اس کے جانوروں کا خوراک ہوتا ہے۔ وہ حیران ہے کہ اگر نیشنل پارک بن گیا تو میرا کیا ہوگا۔ کیا مجھے اپنے مویشی وہاں لیجانے کی اجازت ہوگی۔ کیا اسے جلانے کے لئے لکڑی ملے گی۔ کیا اسے ان پہاڑوں میں آزادی سے گھومنے کی اجازت ہوگی، وہ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کوئی اسے جواب نہیں دیتا۔ کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہے تو کیا جواب دے گا، وہ اپنے بزرگوں سے پوچھتا ہے تو وہ بھی بے بسی سے سر ہلادیتے ہیں، اب کی بار صرف راج میر کے علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن وہ جانتا ہے شروعات اس سے ہوگی اور آہستہ آہستہ آس پاس جتنے بھی علاقے ہیں اس پر آج کا ڈیجیٹل نواب قابض ہوجائے گا۔ راج میر کے بڑے مشورہ کرکے عدالت کا رخ کرتے ہیں اور وہاں جا کر اس قدام کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ راج میر اور دوسروں کو سختی سے ہدایت کیجاتی ہے کہ وہ خاموش رہیں ورنہ تو راج میر کا دل چیخ چیخ کر کہنا چاہتا کہ سوات کے زرخیز زمینوں سے ہمیں بے دخل کر کے ہمیں ان پہاڑوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا تھا ہم خوشی سے یہاں نہیں آئے تھے ۔ جب یہ سرد جہنم تھا تو ہم نے اسے آباد کیا۔ یہاں کے ایک ایک درخت ایک ایک پتھر پر ہماری نشانی ہے، لیکن اب جب یہ سرد جہنم سے تبدیل ہوکر جنت بن چکا ہے تو ان سے چھین نے کی کوشش ہو رہی ہے، وہ سوچ رہا ہے کہ اگر عدالت نے بھی ان کے خلاف فیصلہ دیا تو پھر کیا ہوگا۔ اس کے لوگوں کا کیا ہوگا، مال مویشیوں کا کیا ہوگا َ؟ جو راج میر کی زندگی کے اسی فیصد ضروریات پوری کرتا ہے ،کیا اسے ایک بار پھر نقل مکانی کرنی ہوگی؟ اسے کہاں جانا ہوگا ؟ ؟ یا پھر ایک بار پھر بتوٹ کا میدان سجے گا۔۔۔ ؟ وہ انتہا پسند یا جنگوو نہیں ہے بلکہ وہ تو ستار کے دھن پر سر ہلانے والا ایک مست داردی ہے ، اس کی امن پسندی کا اس بڑا اور کیا ثبوت ہوگا کہ پڑوس کا علاقہ سوات آگ میں جل رہا تھا اور اس کے علاقے میں ایک فائر تک نہیں ہوا ۔ اس نے اگر کبھی اسلحہ اٹھایا بھی ہے تو اپنی عزت اور اپنی بقاء کے خاطر ۔