AN INTRODUCTION OF DIR KOHISTAN BOOK REVIEW BY ZUBAIR TORWALI - Daily Kumrat Daily Kumrat

Latest

Thursday, 21 March 2019

AN INTRODUCTION OF DIR KOHISTAN BOOK REVIEW BY ZUBAIR TORWALI

کتاب ۔ دیر کوہستان ایک تعارف
مصنف۔ ڈاکٹر حضرت بلال
Book on Dir Kohistan, #kumratvalley #how_to_reach_kumratvalley #kurmatvalley #kumrat #valley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat #valley #hotels_in_kumratvalley, hotels in kumratvalley, hotel in kumrat, how to reach kumrat,
best hotel in kumrat, best hotel in kumratvalley, facilities in kumaratvalley, 
tourism in pakistan, tourism in kp, kundol lake, mahodand lake, places to visit in kumrat valley, kumrat valley waterfall,kumrat valley map,
katora lake location,kumrat valley to katora lake distance, kumrat valley hotels
Jehazbanda, How to reach Jehazbanda, Hotels_in_Jehazbanda, Jehazbanda_Spots, Picnic Spot at Jehazbanda, Jehazbanda 
#lakes at kumratvalley, #katoora lake, Jamia Masjid Thall, Historical Jamia Masjid Thall, daily kumrat, kumrat news,
#badgoyeeTop
تحریر: زبیر توروالی
 ہندوکش، قراقرم، ہمالیہ اور پامیر کے پہاڑوں میں بسنے والوں کی ثقافتوں، زبانوں، تاریخ، سیاسات اور سماجیات پربہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس تحقیق میں مقامی لوگوں کا حصّہ تو بہت ہی کم رہا ہے۔ ان وادیوں میں قدیم قومیں رہتی ہیں جو تاریخی طور پر تین اہم سلطنتوں کے بیچ رہتے ائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان قوموں پر ان سلطنتوں کےسیاسی، سماجی و ثقافتی اثار نمایا ں رہے ہیں۔ ہند، وسطی اشیا خصوصاً فارس اور تبت /چائنہ جیسے سلطنتوں کے بیچ ان اقوام نے بہت تاریخی و سیاسی جبر بھی جھیلے ہیں۔ یہ اقوام تین تہیوں پر مشتمل نوابادیات کے زیرعتاب رہے ہیں۔ یہ خطہ جسے بعض محقیقن ہائی اشیاء یعنی بلند اشیاء سے بھی یاد کرتے ہیں کلونیل زمانے میں گریٹ گیم کا شکار بھی رہا ہے۔ ان اقوام پر نوابادیتی ادوار میں جو تحقیق کی گئی ہے وہ عموما ً کسی تیسرے ذریعوں کی محتاج رہی ہے۔ مطلب اگر کسی یورپی نے یہاں کی تاریخ پر یا لوک ادب پر تحقیق کی ہے تو اکثر و بیشتر بہ امر مجبوری ان لوگوں پر قابض لوگوں کی مدد لی گئی ہے جو کہ مغل دربار سے یا پھر افغانستان سے منسلک تھے۔ ذیادہ تر محقیقین نے یہاں پر تحقیق کے لیے اپنے معاونین کو دوسرے قوموں سے رکھا ہے جو کہ پشتون تھے ، ایرانی تھے یا پھر مغل سلطنت سے منسلک پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے تھے۔ ان وجوہ کی بنا پر ان اقوام کے بارے میں اپنی اپنی اراء دی ہیں جو بسااوقات تعصب اور کسی خاص سلطنتی نکتہ نظر پیش کرتی ہیں۔
ایسے میں یہ ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ یہاں کے مقامی لوگ اگے بڑھے اور اپنی تاریخ، سماجیات، لسانیات اور ثقافتوں پر خود لکھیں۔ یہاں بھی ان مقامی لوگوں کو بڑے چیلینجز کا سامنا رہتا ہے کہ وہ کئی تاریخی تحقیقی روایات کو علمی و تحقیقی بنیاد پر چیلینج نہیں کرسکتے۔ ان کی تحقیق میں وہی نوابادیاتی چھاپ صاف نظر اتی ہے اورجس شناختی بحران سے یہ اقوام صدیوں سے گزر رہی ہیں وہ بحران ایسی تحقیقات میں نمایاں ہوکر سامنے اجاتا ہے۔ تاہم ان مقامی محقیقین اور لکھاریوں کی ان کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہے کیوں کہ اگے جاکر ان کی تحقیق کو مزید نکھارا جاسکتا ہے۔ گلگت ہو، بلتستان ہو کہ چترال ، کوہستان ہو کہ سوات یا دیر ہر جگہ مقامی لوگوں میں اب یہ احساس پیدا ہورہا ہے اوروہ کسی سرپرستی یا باقاعدہ تحقیقی تربیت نہ ہونے کے باوجود کافی کچھ کر رہے ہیں۔ ایسے افراد میں ایک شخص مکرالہ لاموتی سے ڈاکٹر حضرت بلال بھی ہیں جو تدریس و طب کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ انہوں نے بغیر کسی سرپرستی کے پنجکوڑہ وادی جسے مقامی طور پر ”دیر کوہستان“ سے بھی یاد کیا جاتا ہے کا ایک ثقافتی، تاریخی اور سیّاحتی تعارف ایک مختصر کتاب ”دیر کوہستان ایک تعارف“ کے نام سے لکھ کر اس وادی اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں مزید تحقیق کرنے کی ترغیب دی ہے۔
اس مختصر کتاب میں مصنف نے دیر کوہستان کی تاریخ پر کچھ تاریخی و روایتی حوالوں سے بات کی ہے۔ یہاں کے رسم و رواج اور تہواروں کی نشاندہی کی ہے اور اسی طرح یہاں کے مشہور مقامات اور غیر معروف قوموں کا تعارف کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش قابل ستائش ہے ۔ کوئی بھی کتاب حرف اخر نہیں ہوتی اور نہ ہی سارے معلومات ایک کتاب میں یکجا کرکے پیش کیے جاسکتے ہیں۔ کتاب میں کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن اس کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر بلال اس کتاب کا دوبارہ جائزہ لے کر اس میں مزید چیزیں شامل کر رہے ہیں اور اگلے ایڈیشن بھی چھاپنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کی ایک اہم خاصیت گاؤری کے لوگ ادب سے شاعری، کہاوتوں اور ضرب الامثال کو اردو میں پیش کیا گیا ہے۔ اگلی ایڈیشنز میں کتاب کے اس حصّے کو مقامی زبانوں میں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کی تاریخ پر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے اور کچھ ایرانی و روسی ماخذوں کی مدد سے اس تحقیق کو مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ یہ مختصر کتاب ایک اچھی کاوش ہے اور اس کے لیے میں ڈاکٹر حضرت بلال کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کتاب اپنے ذرائع سے 2017ء میں چھاپی ہے اور قیمت کم رکھی ہے تاکہ مقامی لوگ اس سے استفادہ کرسکے۔