گمنام کوہستانی کی قلم سے
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی دیر کوہستان کے باشندوں کے مشاغل بھی بدل جاتے ہیں۔ اب نہ تو صبح سویرے اٹھ کر کھیت باڑی یا کسی اور کام پہ جانا ہوتا ہے اور نہ کسی سکول وغیرہ،یوں سمجھیں کہ موسم سرما میں ہم لوگ بس ارام کرتے ہیں،کوئی کام دھندا نہیں ہوتا راوی چین ہی چین لکھتا ہے،گھر پر بیٹھے بیٹھے بور ہوگئے تو مسجد کے بیلر کے سامنے محفل میں شریک ہوجاوں ، اگر موسم صاف ہو اور سورج مہربان تو پھر کسی گھر کے چھت، مسجد کےصحن یا پھر بازار جا کر کسی بند دوکان کے سامنے آلتی پالتی مار کر اللہ رب العٰالمین نے جو بہت بڑا سا ہِیٹر ہمارے لیے مُفت میں لگا رکھا ہے، اُس سے فیض یاب ہو یعنی دوپہر کی نرم دُھوپ سینکو،ساتھ ساتھ اپنے سنگی بیلی کے ساتھ گپّیں لگاوں، اس دھوپ اور محفل کا اپنا ایک الگ مزہ ہوتا ہے،سعودیہ، دوبئی وغیرہ میں کام کرنے والے بھائی اکثر ان محفلوں میں آکر ان ممالک کے بارے میں قصے کہانیاں سنایا کرتے ہیں جس سے میرے طرح بھولے بھالے لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہے کہ وہاں تو مزے ہی مزے ہیں، اس غلط فہمی کے وجہ سے ایک دن وہ اپنا وطن اپنا گھر چھوڑ کر ان ممالک کا رخ کرتے ہیں،وہاں جاکر جب اصلیت کا پتہ چلتا ہے تو سر پیٹنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا، خیر جو بھی ہے لیکن یہ محفلیں کوہستان کی رونق ہے،یہ محفلیں کوہستان کے باشندوں کو طویل اور سرد موسم سرما گذارنے میں مدد دیتے ہیں۔