بلا عنوان
گمنام کوہستانی کی قلم سے
موسم سرما میں جب دیر کوہستان کے فلک بوس پہاڑ برف کی سفید چادر اوڑھتے ہیں، تو دیر کوہستان کی وادی ایک دلہن کا روپ دھار لیتی ہے،ہر طرف سفید برف ہی برف نظر آتی ہے، جب برفباری ہو رہی ہو تو ہوا بند ہوجاتی ہے لیکن اگر موسم صاف ہو اور برفباری رک گی ہو تو رگوں میں خون منجمد کرنے والی ٹھنڈی ٹھار ہوائیں چلتی ہیں،صبح سویرے جیسے ہی گھر سے نکلا تو تاحد نگاہ ہر طرف برف ہی برف نظر آئی،سامنےگھروں کے چھتوں پر ہاتھ میں ہیمچور (برف پھیکنے کا مخصوص بیلچہ) لئے بچے جوان چھتیں صاف کرنے میں مصروف ہے، گھروں سے نکلتا دھواں ایک لکیر کی صورت میں فضاء میں پھیل رہا ہے،دور ہندوکش کے پہاڑیوں سے سورج نکل کر چمک رہا ہے،سورج کی روشنی برف پر پڑرہی ہے جس کی چمک آنکھوں کو اندھا کررہی ہے، میرے پیروں کے نیچے دریا سے لے کر سامنے آسباوان پہاڑ تک بس سفیدی ہی سفیدی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پوری وادی اور اردگرد کے پہاڑوں نے ایک ہی سفید چادر اوڑھ رکھی ہو،ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی ہے، میرے دائیں طرف دیودار کے درخت چپ چاپ، ساکت کسی سوچ میں گم محسوس ہو رہے ہیں، بائیں طرف گھروں سے دھواں نکلتا نظر آتا ہے جسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسا کہ زندگی سانس لے رہی ہوں ،ہر طرف ایسی خاموشی ہے کہ ہوا چلنے اور پتوں کے سرسرانے کی آواز بھی اسمیں مخل ہو ہو رہی ہے، اس برف کے جہاں میں، سفیدی میں، تنہائی میں میں اس بڑے درخت کے تنے پر بیٹھا ہو جسے پچھلے سال کاٹا گیا ہے، تنے پر کسی دل جلے عاشق نے اپنی محبوبہ کے نام کا پہلا حروف لکھا ہے، یہ جگہ ساری وادی سے کٹا ہوا الگ تھلگ ہے، جہاں بیٹھ کر قدرت کی آنکھ مچولی کا نظارہ سکون سے کیا جا سکتا ہے، میرے سامنے والے درخت پر ایک چڑیا چہک رہی ہے شائد وہ بھی میری طرح اس منظر کے سحر میں کھو گئی ہے،شائد میری طرح اس کے دماغ پر بھی احمد مشتاق کا یہ شعر دستک دے رہا ہے
کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا