بچپن کی سردیاں
گمنام کوہستانی کی قلم سے
موسم سرما جیسے دیر کوہستان میں تکالیف اور مشکلات کا موسم بھی کہا جاتا ہے اور یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ برفباری کے وجہ سے آمد و رفت تقریبا“ بند ہوجاتی ہے،ہر طرف برف اور سردی کا راج ہوتا ہے،چرند پرند بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹے ہوتے ہیں،پوری وادی پر اداسی چھائی ہوئی ہوتی ہے جیسے کسی نئی نویلی دلہن کا سہاگ اجڑ گیا ہو ،گھروں کے چتوں اور درختوں کے علاوہ ہر چیز پر برف پڑی ہوتی ہے،بازار بند ہوجاتا ہے،کرنے کو کچھ ہوتا نہیں بس سارا دن بیلر کے سامنے یا بستر کے اندر گذر جاتا ہے ،کوہستان کے زیادہ تر جوان پشاور یا کراچی وغیرہ کا رخ کرتے ہیں،گاوں میں بس ایک ادھا جوان اور بوڑھے، بچے ہی نظر اتے ہیں، سردیوں میں چونکہ سکول وغیرہ بند ہوتے ہیں تو بچوں کے پاس کھیلنے کیلئے وقت ہی وقت ہوتا ہے،بوڑھے بزرگ لوگ یا تو گھروں کے اندر ہوتے ہیں یا پھر مسجد کے اندر بیلر کے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ وقت گذارتے ہے۔
جب چھوٹے تھے تو صبح سویرے گھر کے چھت سے برف صاف کرنے کے بعد اس پڑوس کے بچوں کے ساتھ مل کر کسی چھت پر دوپہر تک انگورگش ( سخے) کھیلا کرتے تھے،دو پہر کے بعد مسجد میں مولانا سے سیپارہ پڑا اور عصر کے بعد بوڑھوں بزرگوں کے ساتھ مسجد کے بیلر کے سامنے التی پالتی مار کر ان کے پرانی کہانیاں سنا کرتے تھے،یہ کہانیاں کسی بادشاہ یا دیو جن وغیرہ کی نہیں ہوتی بلکہ سچی کہانیاں ہوتی، شکار کی.کہانیاں،مخالف قبیلے سے جنگ کی کہانیاں وغیرہ ،ہم لوگوں کا معمول تھا کہ عصر کے نماز کے بعد عشاء تک مسجد میں ڈیرہ ڈال کر بوڑھوں کے اس محفل خاموشی سے بیٹھ جاتے ، عشاء کے بعد کھانا کھایا اور سوگئے،بچپن کے وہ خوشیوں اور شوخیوں سے بھرے دن بھی اچانک کہاں غائب ہوگئے۔کہ نہ کوئی روزی روٹی کا مسئلہ، نہ کوئی ایسا دکھ یا پریشانی کہ جو ہماری خوشیوں کے آڑے آتے بس سارے دن بے فکری سے کھیلنا ظہر کے بعد سیپارہ پڑھنا اور پھر عصر کے بعد بابا کے ساتھ مسجد کے گرم کمرے میں بوڑھوں کی کہانیاں سننا، یاروں بچپن کی زندگی ہی اصل زندگی ہوتی ہے جوانی میں تو بس انسان کولھوں کا بیل ہوتا ہے۔
جب چھوٹے تھے تو صبح سویرے گھر کے چھت سے برف صاف کرنے کے بعد اس پڑوس کے بچوں کے ساتھ مل کر کسی چھت پر دوپہر تک انگورگش ( سخے) کھیلا کرتے تھے،دو پہر کے بعد مسجد میں مولانا سے سیپارہ پڑا اور عصر کے بعد بوڑھوں بزرگوں کے ساتھ مسجد کے بیلر کے سامنے التی پالتی مار کر ان کے پرانی کہانیاں سنا کرتے تھے،یہ کہانیاں کسی بادشاہ یا دیو جن وغیرہ کی نہیں ہوتی بلکہ سچی کہانیاں ہوتی، شکار کی.کہانیاں،مخالف قبیلے سے جنگ کی کہانیاں وغیرہ ،ہم لوگوں کا معمول تھا کہ عصر کے نماز کے بعد عشاء تک مسجد میں ڈیرہ ڈال کر بوڑھوں کے اس محفل خاموشی سے بیٹھ جاتے ، عشاء کے بعد کھانا کھایا اور سوگئے،بچپن کے وہ خوشیوں اور شوخیوں سے بھرے دن بھی اچانک کہاں غائب ہوگئے۔کہ نہ کوئی روزی روٹی کا مسئلہ، نہ کوئی ایسا دکھ یا پریشانی کہ جو ہماری خوشیوں کے آڑے آتے بس سارے دن بے فکری سے کھیلنا ظہر کے بعد سیپارہ پڑھنا اور پھر عصر کے بعد بابا کے ساتھ مسجد کے گرم کمرے میں بوڑھوں کی کہانیاں سننا، یاروں بچپن کی زندگی ہی اصل زندگی ہوتی ہے جوانی میں تو بس انسان کولھوں کا بیل ہوتا ہے۔