ہمارے بانال ( بانڈہ جات) اور ان میں گذرتی زندگی
موسم بہار کے شروع ہوتے ہی کوہستان کے کچھ باسی اپنے مال مویشیوں کو لیکر دور پہاڑیوں کے طرف نکل جاتے ہیں،تاکہ گاؤں کے کھیتوں میں کاشت کی گئی فصل مویشیوں سے محفوظ رکھ سکے،گاؤں میں ایک گائے یا بکری وغیرہ دودھ کے لئے پالی جاتی ہے، باقی سب ڈور ڈنگر ہر سال موسم بہار کے شروع ہوتے ہی دور پہاڑی چراگاہوں کے طرف چرواہوں کے نگرانی میں بیجھے جاتے ہیں،یہ چرواہیں جنہیں بانالوج یا بانالی کہتے ہے کوئی مخصوص بندہ یا کسی مخصوص خاندان سے نہیں ہوتے بلکہ گاؤں کے لوگوں میں سے کوئی بھی جا سکتا ہے،لیکن زیادہ تر وہ لوگ ہی جاتے ہیں جن کے اپنے مال مویشی زیادہ ہو ،گاؤں کے لوگ اپنے مال مویشیوں کو ان کے ساتھ کر کے ان کو معمولی معاوضہ دیتے ہے،یہ چراگاہیں جسے کوہستانی( گاوری) زبان میں بانال کہتے ہیں سرسبز اور شاداب میدانوں پر مشتمل ہوتے ہیں،عموما بانال وہاں بنائے جاتے ہیں جہاں پانی اور لکڑی بھی ہو کیونکہ شدید سردی میں لکڑیاں جلانے کی کام آتی ہے،کسی ایک بانال میں ایک وقت کیلئے ایک خاندان یا ایک ہی قبیلہ جا سکتا ہے ایک بانال میں دو قبیلے یا دو خاندان نہیں جا سکتے،بانال کی تقسیم کیلئے دیر کوہستان میں الگ الگ طریقے رائج ہیں کسی گاؤں میں مستقل بنیاد پر بانال تقسیم ہے جہاں ہر سال ایک طرف یا ایک بانال کو ایک ہی قبیلہ جاتا ہے اور کسی گاؤں میں ہر سال قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم ہوتی ہے،فلاں قبیلہ اس سال اس طرف جائیگی اور فلاں قبیلہ اس طرف، اسی طرح نئے سال کے موقع پر دوبارہ تقسیم کا عمل شروع ہوتاہے،ہر بانال کچھ گھروں پر مشتمل ہوتا ہے جہاں ایک ہی خاندان یا قبیلہ رہتا ہے،بانال کے گھر جسے ڈیکیر کہتے ہے لکڑی اور مٹی سے بنی ایک چھوٹی سی جونپڑی ٹائپ کی ہوتی ہے جس کی ہر سال مرمت کرنی ہوتی ہے کیونکہ شدید برف باری کے وجہ سے ان میں سے اکثر گر جاتے ہیں،بانالی لوگ سب سے پہلے نیچے والے بانال جاتے ہیں ،جہاں مویشی موسم کی شدد کا مقابلہ کر سکے،وہاں کچھ عرصہ گذارنے کے بعد یہ اس سے اوپر کے بانال کے طرف رخت سفر باندھ لیتے ہیں،اسی طرح راستے میں انے والے ہر بانال میں کچھ عرصہ گذازنے کے بعد آخر میں اگست کے مہینے میں یہ بلکل ٹاپ کے بانال پہنچ جاتے ہیں،وہاں ان کا قیام لمبا ہوتا ہے، ہر بانال میں ایک مسجد بھی ہوتی ہے جو مسجد کے ساتھ ساتھ مہمان خانے کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے،مہمان بھی کسی خاص گھر یا بندہ کا نہیں ہوتا بلکہ ہورے بانال کا مہمان ہوتا ہے،ہر ایک اس کی خدمت کرنے میں لگا ہوتا ہے،جس دن مسجد میں کوئی مہمان اجائے تو بانال کے سارے مرد حضرات رات کا کھانا مسجد ہی میں کھاتے ہیں وہاں پر مہمان سے گپ شپ کے علاوہ گاؤں کے حالات پر بھی بات چیت ہوتی ہے،بانال کی ایک الگ زندگی ہوتی ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ شاہانہ زندگی ہوتی ہے،صبح سویرے اٹھ کر مویشیوں کو ایک مخصوص مقام جسے بڑے لوگ منتخب کرتے ہے پہنچانا ہوتا ہے، بڑو کا یہ انتخاب گاس کی مقدار اور موسم کی شدد پر منحصر ہوتا ہے،اس کے بعد گھر آکر دودھ میں جوار کی روٹی ڈال کر جسے ہم چمکیل کہتے ہے کھا کر ایک کپ چائے پینے کے بعد ان مویشیوں کے بچے باہر کسی قریبی مخصوص جگہ پر چھوڑنے ہوتے ہیں،اس کے بعد ہورا دن بیکار گذارنا ہوتا ہے، کرنے کو کوئی بھی کام نہیں ہوتا بس ستار یا بانسری(شوپیر) لے کر کسی برفیلے پہاڑ کی سرسبز دامن میں بیٹھ کر بجاتے رہوں،دیاراور جنگلی پھولوں کی بینی بینی خوشبوں ہر طرف پھیلی ہو دور کہیں ابشار گرنے کی اواز اور سامنے ندی میں بہتے پانی کا شور اور ایسے میں ستار یا بانسری کی لے ایک عجیب قسم کا ماحول بن جاتا ہے،
بانال کے مویشی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو دودھ دیتے ہے اور ایک وہ جو دودھ نہیں دیتے،جو.مویشی دودھ نہیں دیتے انہیں دور کسی پہاڑ پر چھوڑا جاتا ہے جہاں پر پانی اور گاس وافر مقدار میں ہوتی ہے،یہ.مویشی اس پہاڑ کے اس پاس ایک ساتھ رہتے ہیں،ان میں سے ایک ادھا کسی جنگلی جانور کا شکار بھی ہو جاتا ہے لیکن بہت کم ایسا ہوتا ہے ،عصر کے بعد ہر گھر کے پاس سارے موشیوں کے سامنے نمک کے بڑے بڑے ڈھیلے رکھنے ہوتے ہے،تاکہ اس نمک کے وجہ سے کل یہ جانور دوبارہ یہاں آئے،ورنہ رات بھر انہیں ڈھونڈنا پڑیگا،رات کو لالٹین کی روشنی میں کھانا کھانے کے بعد اگر کوئی بوڑھا بابا ہو جسے بولنے اور اپ کو سننے کا چسکا ہو تو واہ واہ ورنہ گھوڑے گدھے بیچ کر سوجاوں کیونکہ رات کو چوری تو ہوتی نہیں بس زیادہ سے زیادہ کسی جنگلی جانور کا ڈر ہوتا ہے اور اس کیلئے چریز کی ایک ہی فائر کافی ہے جسے سن کر وہ مہینوں اپنی شکل نہیں دکھا تھا،صبح پھر وہی کہانی دہرائی جاتی ہے.متر پنیر دیسی گھی وغیرہ بانال ہی میں بنائے جاتے ہیں،اوسطََ پانچ کلو گھی ایک دودھ دینی والی گائے سے حاصل.کیجاتی ہے،متر پنیر وغیرہ کا الگ حساب ہوتا ہے،ستمبر کے آخری ہفتے میں یہ لوگ واپسی کا ارادہ کرتے ہے اور واپس اسی طرح راستے میں آنے والے ہر بانال میں رک کر اخر گاوں پہنچ جاتے ہیں،اپنی دیسی گھی وغیرہ لانے کیلئے گاؤں کے لوگوں کو خود جانا پڑتا ہے،وہاں ایک ادھا دن رک کر اپنے حصے کی گھی وغیرہ جسے شٹیر کہتے ہے گاوں لاتے ہے،ہر بانال.میں دو تین گدھے ضرور ہوتے ہے جس پر گاوں سے راشن وغیرہ لایا جاتا ہے اس کے علاوہ گھوڑے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ صرف سواری کیلئے استعمال ہوتے ہیں، بانال میں چونکہ ان لوگوں کو بہت کم عرصے کیلئے رکنا ہوتا ہے تو صرف ساگ (سونچل شو) ہی کاشت کر کے اسےکھاتے ہیں،دوسری سبزیاں گاؤں سے لانی پڑتی ہے،بنال.کے ساگ کا اپنا ہی مزہ ہے، اس کے علاوہ دودھ دہی دیسی گھی اور پنیر وغیرہ کھانے کو ملتی ہے،جانور وغیرہ اگر کسی پہاڑ سے گر جاٰئے اور اسے ذبح کرنے کا موقع بھی ملے تو پھر بار بی کیو کا پروگرام بن جاتا ہے لیکن مصالحوں کہ بجائے صرف نمک سے کام چلانا پڑتا ہے
کیونکہ ہم.لوگ مصالحے نہیں کھاتھے،بنال میں کبھی کبھار مشکل کام بھی کرنا پڑتا ہے جیسے کسی دن پتہ چلا کہ فلاں کی گائے نہیں ہے تو پھر بن جا، بنجارا کبھی اس پہاڑ پر تو کبھی اُس پہاڑ پر قسمت اچھی ہوئی تو جلد مل جائیگی ورنہ خواری بہت ہے،پرانے زمانے میں بہت لوگ بانال جاتے تھے بلکہ ہمارے تو زیادہ تر بڑے پیدا ہی بانال میں ہوئے تھے،اج کل بہت کم لوگ جاتے ہے کچھ مویشی نہ ہونے کے وجہ سے اور کچھ کو اب بانال جانے کا شوق ہی نہیں ہےبانال میں سب مل.جل کر رہتے ہیں سب کے گھر ایک جیسے جونپڑی نما ہوتے ہے،امیر اور غریب کے درمیان جو فرق ہے بانال میں وہ نہیں ہوتا،گاوں سے کوئی.بھی بانال جائےگا پہلے وہ بانالی.لوگوں کے گاوں میں رہنے والے رشتہ داروں سے ملےگا اسی طرح اگر کسی کو بانال سے گاوں انا ہوتا ہے تو پورے بانال میں ہر گھر جاکر پوچھے گا کچھ منگوانا تو نہیں یا کسی کو کوئی.پیغام وغیرہ تو نہیں دینا،یار لوگ بولتے ہیں کہ بانال کی زندگی بور ہوتی ہے بندہ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے لیکن مجھے ان سے اختلاف ہے، راجکوٹ کا نواز لالا اکثر مجھے کہتا ہے کہ عمران تمھارے مزے ہیں گرمیوں میں پہاڑوں اور سردیوں میں شہر میں ہوتے ہو .لیکن.کیا کرو مجھے بانال کی پر سکون اور سادہ زندگی اچھی لگتی ہے مجھے ان.پہاڑوں سے عشق ہے اور میری خواہش ہوتی ہے کہ میں بانال میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارو.......... گمنام کوہستانی
بانال کے مویشی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو دودھ دیتے ہے اور ایک وہ جو دودھ نہیں دیتے،جو.مویشی دودھ نہیں دیتے انہیں دور کسی پہاڑ پر چھوڑا جاتا ہے جہاں پر پانی اور گاس وافر مقدار میں ہوتی ہے،یہ.مویشی اس پہاڑ کے اس پاس ایک ساتھ رہتے ہیں،ان میں سے ایک ادھا کسی جنگلی جانور کا شکار بھی ہو جاتا ہے لیکن بہت کم ایسا ہوتا ہے ،عصر کے بعد ہر گھر کے پاس سارے موشیوں کے سامنے نمک کے بڑے بڑے ڈھیلے رکھنے ہوتے ہے،تاکہ اس نمک کے وجہ سے کل یہ جانور دوبارہ یہاں آئے،ورنہ رات بھر انہیں ڈھونڈنا پڑیگا،رات کو لالٹین کی روشنی میں کھانا کھانے کے بعد اگر کوئی بوڑھا بابا ہو جسے بولنے اور اپ کو سننے کا چسکا ہو تو واہ واہ ورنہ گھوڑے گدھے بیچ کر سوجاوں کیونکہ رات کو چوری تو ہوتی نہیں بس زیادہ سے زیادہ کسی جنگلی جانور کا ڈر ہوتا ہے اور اس کیلئے چریز کی ایک ہی فائر کافی ہے جسے سن کر وہ مہینوں اپنی شکل نہیں دکھا تھا،صبح پھر وہی کہانی دہرائی جاتی ہے.متر پنیر دیسی گھی وغیرہ بانال ہی میں بنائے جاتے ہیں،اوسطََ پانچ کلو گھی ایک دودھ دینی والی گائے سے حاصل.کیجاتی ہے،متر پنیر وغیرہ کا الگ حساب ہوتا ہے،ستمبر کے آخری ہفتے میں یہ لوگ واپسی کا ارادہ کرتے ہے اور واپس اسی طرح راستے میں آنے والے ہر بانال میں رک کر اخر گاوں پہنچ جاتے ہیں،اپنی دیسی گھی وغیرہ لانے کیلئے گاؤں کے لوگوں کو خود جانا پڑتا ہے،وہاں ایک ادھا دن رک کر اپنے حصے کی گھی وغیرہ جسے شٹیر کہتے ہے گاوں لاتے ہے،ہر بانال.میں دو تین گدھے ضرور ہوتے ہے جس پر گاوں سے راشن وغیرہ لایا جاتا ہے اس کے علاوہ گھوڑے بھی ہوتے ہیں لیکن وہ صرف سواری کیلئے استعمال ہوتے ہیں، بانال میں چونکہ ان لوگوں کو بہت کم عرصے کیلئے رکنا ہوتا ہے تو صرف ساگ (سونچل شو) ہی کاشت کر کے اسےکھاتے ہیں،دوسری سبزیاں گاؤں سے لانی پڑتی ہے،بنال.کے ساگ کا اپنا ہی مزہ ہے، اس کے علاوہ دودھ دہی دیسی گھی اور پنیر وغیرہ کھانے کو ملتی ہے،جانور وغیرہ اگر کسی پہاڑ سے گر جاٰئے اور اسے ذبح کرنے کا موقع بھی ملے تو پھر بار بی کیو کا پروگرام بن جاتا ہے لیکن مصالحوں کہ بجائے صرف نمک سے کام چلانا پڑتا ہے
کیونکہ ہم.لوگ مصالحے نہیں کھاتھے،بنال میں کبھی کبھار مشکل کام بھی کرنا پڑتا ہے جیسے کسی دن پتہ چلا کہ فلاں کی گائے نہیں ہے تو پھر بن جا، بنجارا کبھی اس پہاڑ پر تو کبھی اُس پہاڑ پر قسمت اچھی ہوئی تو جلد مل جائیگی ورنہ خواری بہت ہے،پرانے زمانے میں بہت لوگ بانال جاتے تھے بلکہ ہمارے تو زیادہ تر بڑے پیدا ہی بانال میں ہوئے تھے،اج کل بہت کم لوگ جاتے ہے کچھ مویشی نہ ہونے کے وجہ سے اور کچھ کو اب بانال جانے کا شوق ہی نہیں ہےبانال میں سب مل.جل کر رہتے ہیں سب کے گھر ایک جیسے جونپڑی نما ہوتے ہے،امیر اور غریب کے درمیان جو فرق ہے بانال میں وہ نہیں ہوتا،گاوں سے کوئی.بھی بانال جائےگا پہلے وہ بانالی.لوگوں کے گاوں میں رہنے والے رشتہ داروں سے ملےگا اسی طرح اگر کسی کو بانال سے گاوں انا ہوتا ہے تو پورے بانال میں ہر گھر جاکر پوچھے گا کچھ منگوانا تو نہیں یا کسی کو کوئی.پیغام وغیرہ تو نہیں دینا،یار لوگ بولتے ہیں کہ بانال کی زندگی بور ہوتی ہے بندہ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے لیکن مجھے ان سے اختلاف ہے، راجکوٹ کا نواز لالا اکثر مجھے کہتا ہے کہ عمران تمھارے مزے ہیں گرمیوں میں پہاڑوں اور سردیوں میں شہر میں ہوتے ہو .لیکن.کیا کرو مجھے بانال کی پر سکون اور سادہ زندگی اچھی لگتی ہے مجھے ان.پہاڑوں سے عشق ہے اور میری خواہش ہوتی ہے کہ میں بانال میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارو.......... گمنام کوہستانی