خوش قسمت ہوتی ہے وہ قوم جن میں لکھاری پیدا ہو۔۔دیر کوہستان ،جو پاکستان کا سب سے خوبصورت ترین علاقہ ہےلیکن حکومت کی عدم توجہی اور عوام میں تعلیم کی کمی کی باعث اس علاقے میں واقع نایا ب تہذیب ختم ہو تا جار ہا ہے ۔اگر ایک طرف پرانے زمانے کی برتن ،لکڑی کے دوسرےنایاب اشیاء اور پرانے تمدن کے نمونے کو محفوظ کرنے کا بھیڑا راجا تاج محمد نے اٹھایا ہے تو دوسری طرف اس قوم کی تاریخ اور تہذیب کو آنے والے نسلوں کے لیے ذخیرہ کرنے کا کارنامہ کینولام کے ہونہار شحصیت اور مقامی معلم ڈاکٹر حضرت بلال نےسر انجام دیا ہے ۔ڈاکٹر بلال کی کتاب "دیر کوہستان ،ایک تعارف" بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے جس میں انہوں بہت ہی محنت اور لگن سے دیر کوہستان کے بارے میں معلومات جمع کیے ہیں ۔ڈاکٹر بلال نے کئ سالوں کی تقیق کے بعد یہ کتاب لکھاہے ہےجو ابھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔کتاب "دیر کوہستان ،ایک تعارف " کے لیے مصنف نے سوات ،پشاور اور گلگت تک کے سفر کیے ہیں اور وہاں سے نایاب معلومات اکھٹے کیے ہیں ۔دیر کوہستان میں واقع چھ گاؤں جن میں کوہستانی قوم اکثریت سے آباد ہےجن کی زبان کی ابتداء اور ارتقاء کے بارے میں مصنف نےبہت محنت سے کام کیا ہوا ہے ۔مصنف نے کئی سال محنت کرکے مختلف جگہوں کے وجہ تسمیہ اور دوسرے اہم امور زیر بحث لائے ہیں ۔یاد رہے کہ اس سے پہلے کسی نے بھی دیر کوہستان میں آباد قوم کے بارے میں لکھنے کی زخمت گوارا نہیں کیا تھا جس کے سبب ان وادی میں ہزاروں سال کے پرانے تہذیب آہستہ آہستہ ختم ہو تا گیا ۔
خوش قسمت ہوتی ہے وہ قوم جن میں لکھاری پیدا ہو۔۔دیر کوہستان ،جو پاکستان کا سب سے خوبصورت ترین علاقہ ہےلیکن حکومت کی عدم توجہی اور عوام میں تعلیم کی کمی کی باعث اس علاقے میں واقع نایا ب تہذیب ختم ہو تا جار ہا ہے ۔اگر ایک طرف پرانے زمانے کی برتن ،لکڑی کے دوسرےنایاب اشیاء اور پرانے تمدن کے نمونے کو محفوظ کرنے کا بھیڑا راجا تاج محمد نے اٹھایا ہے تو دوسری طرف اس قوم کی تاریخ اور تہذیب کو آنے والے نسلوں کے لیے ذخیرہ کرنے کا کارنامہ کینولام کے ہونہار شحصیت اور مقامی معلم ڈاکٹر حضرت بلال نےسر انجام دیا ہے ۔ڈاکٹر بلال کی کتاب "دیر کوہستان ،ایک تعارف" بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے جس میں انہوں بہت ہی محنت اور لگن سے دیر کوہستان کے بارے میں معلومات جمع کیے ہیں ۔ڈاکٹر بلال نے کئ سالوں کی تقیق کے بعد یہ کتاب لکھاہے ہےجو ابھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔کتاب "دیر کوہستان ،ایک تعارف " کے لیے مصنف نے سوات ،پشاور اور گلگت تک کے سفر کیے ہیں اور وہاں سے نایاب معلومات اکھٹے کیے ہیں ۔دیر کوہستان میں واقع چھ گاؤں جن میں کوہستانی قوم اکثریت سے آباد ہےجن کی زبان کی ابتداء اور ارتقاء کے بارے میں مصنف نےبہت محنت سے کام کیا ہوا ہے ۔مصنف نے کئی سال محنت کرکے مختلف جگہوں کے وجہ تسمیہ اور دوسرے اہم امور زیر بحث لائے ہیں ۔یاد رہے کہ اس سے پہلے کسی نے بھی دیر کوہستان میں آباد قوم کے بارے میں لکھنے کی زخمت گوارا نہیں کیا تھا جس کے سبب ان وادی میں ہزاروں سال کے پرانے تہذیب آہستہ آہستہ ختم ہو تا گیا ۔
No comments:
Post a Comment