SOLITARY TREE OF KUMRATVALLEY - Daily Kumrat Daily Kumrat

Latest

Thursday, 29 March 2018

SOLITARY TREE OF KUMRATVALLEY

تنہا درخت
میرا نام اکثار لوو ہے، اکثار لوو یعنی تنہا درخت ـ مجھے نہیں معلوم کہ میری عمر کتنی ہے،لیکن ابھی میں بالکل جوان ہوں ـ میں اپنی جائے پیدائش کے بارے میں بتا سکتا ہوں ـ میں بہت دور ایک برف پوش پہاڑوں کے درمیان ایک سرسبز جنگل میں پیدا ہوا جسے دنیا وادی کمراٹ کے نام سے جانتی ہے ـ کمراٹ جہاں بلند و بالا برف پوش پہاڑ، سرسبز میدان، گنگناتے ندی نالے، بلندی سے گرتے آبشاریں، اور لا تعداد جنگلی جانور پائے جاتے ہیں ـ میں ہمیشہ سے ایسا تنہا نہیں ہوں ـ ایک وقت تھا کہ میرے اردگرد بہت سارے درخت تھے ـ میرے بچپن کے دن بہت حسین تھے ـ میں اورمیرے دوسرے ساتھی قدرت کے ان حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہمارے آس پاس رہنے والے کیڑے مکوڑے، حشرات اور پرندے ہمارے پاس آتے تھے۔ کئی پرندے اور جانور ہم سے اپنا خوراک بھی حاصل کرتے تھے۔اگر اس علاقے میں ہونے والی برف باری کا پوچھیں تو موسم سرما میں چار سے دس فٹ برف عام بات ہے ـ لیکن موسم گرما کا ماحول بہشت کی طرح ـ تو صاحب گزرتے وقت کے ساتھ میرے آس پاس موجود درخت مجھ سے بچھڑ گئے۔ کئی کو انسانوں نے اپنی ضرورت کےلئے کاٹا،کئی آسمانی بجلی سے جل گئے، اور کئی کو طوفان و باد باراں نے گرادیا ـ الغرض حادثات دنیا نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا صرف میں بچ گیا ہوں ـ میرے سامنے پیچھے اور دائیں بائیں گھنے جنگل ہیں جن کی آوازیں میں سنتاہوں، لیکن میرے قریب کوئی درخت نہیں ہے جس سے میں بات کر سکوں ـ میں اس سرسبز میدان میں کھڑا ایک تنہا درخت ہوں ـ میرے سامنے اس راستے پر صدیوں سے کوہستانی لوگ اپنے اہل و عیال کے ساتھ گزرتے رہے ہیں ـ میں نے ان راستوں پہ کلہاڑیوں اور تلواروں سے مسلح، اون سے بنےلباسوں میں ملبوس پنڈلیوں پر پاٹ باندھے ہوئے گھڑ سوار لوگوں سے لیکر ، جدید بندوقوں سے مسلح، سروں پر جناح کیپ اور ہاتھوں میں موبائل تھامے لوگوں کو ان برف پوش پہاڑوں میں اپنی اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا ہے ـ میرے اس تنے سے ٹیک لگا کر چرواہے چاٰئے کی چسکیاں لیتے ہوئے برف پوش پہاڑوں میں رہنے والے پریوں کی داستانیں سنایا کرتے تھے ـ میں کوہستان کی قدیم اور جدید، بود وباش اور طرز زندگی کا خاموش گواہ ہوں۔ میں بوڑھا نہیں ہوں، ہم دیاروں کی عمر کئی ہزار سال ہوتی ہے ـ ساتھیوں کے جانے کے بعد میں کئی سالوں تک اکیلا اور خاموش کھڑا رہا ـ لیکن آج اپنی تنہائی سے گھبراکر میں نے سوچا آپ سے بات کی جاٰئےـ آپ تو اپنی سناتے نہیں سوچا ہم سنائیں گر برا لگا ہو تو معافی چاہتاہوں ـاگر کبھی کمراٹ آنا ہوا تو مجھ سے ملئے، میں کمراٹ میں کنڈیلشئی بانال کے سامنے آپ کا منتظر رہونگا ــــ گمنام کوہستانی