SAHIB - Daily Kumrat Daily Kumrat

Latest

Thursday, 8 February 2018

SAHIB

صاحب 
 گمنام کوہستانی کے قلم سے 
 میرا نام "لوو زروں فونڈ ہے یعنی (زرنگار پھول)"۔ یہ نام مجھے میری برادری نے دیا ہے، انسان مجھے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں جیسے کوئی ہمیں مرغزریں کہتے ہیں تو کوئی ہمیں لویٹ کے نام سے پکارتے ہیں، جہاں میں رہتا ہوں یعنی دیر کوہستان تو یہاں کے لوگ مجھے لویش کے نام سے جانتے ہیں، مجھے معلوم نہیں میری عمر کتنی ہے لیکن اتنا معلوم ہے کہ اپنی برادری میں میری عمر سب سے زیادہ ہے، جب میں پیدا ہوا تو اپنے اردگرد برف سے لپٹی فلک بوس چوٹیاں، شور مچاتے، گیت گاتے ندی نالوں اور ہر طرف لہلہاتے سبزہ زاروں کو دیکھ کر بہت خوش تھا، ہمارے آس پاس بہت سارے درخت تھے، جب ہوا چلتی تھی تو ہم ایک دوسرے کو تھام کر درختوں کے شاخوں پر جھومتے تھے، میں اور میرے دوسرے ساتھی آس پاس موجود قدرت کے ان حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے، اسی دوران آس پاس موجود دوسرے جانور ہم سے بچھڑ گئے، کہاں گئے مجھے نہیں معلوم کیونکہ اس وقت دنیا کے بارے میں ہمارا علم محدود تھا اور ہمیں دور تک گھومنے کی اجازت بھی نہیں تھی بس اپنے علاقے میں ارگرد گھومتے تھے، دوسرے جانور دوردراز کے علاقوں تک جاتے تھے، پہلےہم سارے لویش بہت خوش تھے کیونکہ دنیا بہت خوبصورت تھی اور ہم بھی اس خوبصورتی کا حصہ تھے، بارش اور بہار کے موسم میں خوب ناچتے اور شور مچاتے ہوئے زندگی بہت مزے سے گزر رہی تھی، ایک دن میں نے ایک عجیب جانور دیکھا، ہمارے اس جنگل میں انواع و اقسام کے جانور تھے۔ لیکن یہ جانور ان سب سے مختلف تھا۔ اس کے کندھے پر ایک عجیب و غریب چمکدار چیز تھی۔ میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ یہ کونسا جانور ہے؟ ساتھی نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ یہ انسان ہے اسے آدمی بھی کہا جاتا ہے۔ میں نے اُس سے ڈرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے سرگوشی میں کچھ کہا جو میں ہوا کے شور کے وجہ سے سن نہ سکا۔ میں نے دوبارہ پوچھنے کا ارادہ کیا تھا کہ اچانک زور دار اواز آئی، آسمانی بجلی گرنے کی آواز کی طرح جو کبھی کبھار ہمارے اس پر سکون جنگل میں سنائی دیتی ہے۔ میں نے اپنی ساتھی کی طرف پلٹ کر دیکھا، وہ زمین پر گر کر تڑپ رہا تھا اور وہ انسان اس کی گلے پر چھری پھیر رہا تھا، اس دن کے بعد میں انسان نامی اس جانور سے بہت ڈرتا ہوں۔ اس کو دیکھتے ہی مجھے اپنا ساتھی یاد آتا ہے، اسی طرح ایک ایک کرکے یہ انسان ہمیں شکار کے نام پر قتل کرنے لگے، ہم ڈر گئے اور خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگے، میرے ساتھی ڈر کے مارے انجان علاقوں کے طرف نکل گئے، انہوں نے مجھے بھی ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن میں نے جانے سے انکار کیا، میں اس جگہ کو چھوڑ نہیں جا سکتا، اس جگہ میں پیدا ہوا ہوں یہ میرا وطن ہے میں اپنے وطن کو نہیں چھوڑسکتا، میں اب بھی یہاں رہتا ہوں،میں اکیلا نہیں ہوں گنتی کے دوچار ساتھی بھی میرے ساتھ ہیں۔ اب یہاں دوسرے جانور بھی نہیں آتے، شاید انھیں بھی قتل کردیا گیا ہے، ہم بھی اسی خوف میں زندگی گزار رہے ہیں، کہ کسی دن انسان نامی یہ جانور آئے گا اور ہمیں بھی قتل کرے گا، یہ کوہستان ہمارا بھی وطن ہے صاحب، اس پر جتنا حق آپ کا ہے اتنا ہمارا بھی ہے۔ یہ دنیا بہت خوبصورت ہے،ہم بھی جینا چاہتے ہیں صاحب، ہمیں جینے دے، ہم بھی جینے کا حق رکھتے ہیں ہم اپنے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں صاحب، میری نسل ختم ہو رہی ہے، آپ ہمیں نہیں بچائیں گے تو ہمیں کون بچائے گا صاحب، ہمیں بچا لیجئے صاحب،آپ نہیں تو ہمیں بچانے کون آئے گا صاحب؟ ہمیں بچانے کون آئے گا صاحب؟ کون آئے گا صاحب