پندرہ بیس سال پہلے دیر کوہستان کے گاؤں کلکوٹ،لاموتی اور تھل میں صدقے کا عام رواج تھا ۔نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی جگہ جگہ خیرات کا انتظام کیا جاتا ہے ۔کلکوٹ،تھل اور لاموتی میں کوئی محلہ ایسانہ ہوگا جہاں پر کوئی خیرات نہ کردیتا۔اس احسن اقدام اور کار خیر میں عموما ً تھل کے لوگ سب سے آگے تھے ۔ خیرات میں گائے بیل سے لیکر بھینس تک ذبح کی جاتی تھی اور ہر خاص وعام کی بذریعہ مسجد لاؤڈ سپیکر اطلاع دی جاتی تھی ۔سب اپنے ساتھ خود کے برتن لے جاتے اور وہاں چاول کی جگہ شوربا اور جوار کی روٹی آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی تھی ،شوربا میں جوار کی روٹی ڈالنے کے بعد ایک صاحب مٹی ہی کی برتن میں جانوروں سے نکالی گئی گرم چربی یا دیسی گھی اس شوربے میں ڈال دیتے تھے اور ساتھ ہی دوسرے شخص ٹوکری میں گوشت آپ کے ہاتھ میں دیتے تھے ۔کھانے کا مزا تو ان سے پوچھیں جنہوں نے یہ لذید کھانا کھایا ہوگا ۔
وقت گزرتا گیا ،آسانیاں پیدا ہوتی گئی اور یہ حسین اور لذید روایت آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا ۔ اب تو نہ وہ جوار کی روٹی ہے نہ شوربا اور نہ اتنے بڑے مقدار میں خیراتیں ،اگر کہیں خیرات ہوبھی تو عموماً چاول ہی پکائی جاتی ہے ،کیونکہ چاول پکانے میں اتنی مشقت کرنا نہیں پڑتا جتنا پرانے زمانے کے شوربا اور جوار کی روٹی میں ۔خیرات میں جوار کی روٹی کو پکانے کے لیے سب محلے کے عورتوں کی خدمات لی جاتی تھی ،خیرات سے ایک دن پہلے جوار کی آٹے کو محلے میں تقسیم کی جاتی جسے پکانے کے بعد خیرات کرنے والے کے حوالے کی جاتی تھی ۔میں
وقت گزرتا گیا ،آسانیاں پیدا ہوتی گئی اور یہ حسین اور لذید روایت آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا ۔ اب تو نہ وہ جوار کی روٹی ہے نہ شوربا اور نہ اتنے بڑے مقدار میں خیراتیں ،اگر کہیں خیرات ہوبھی تو عموماً چاول ہی پکائی جاتی ہے ،کیونکہ چاول پکانے میں اتنی مشقت کرنا نہیں پڑتا جتنا پرانے زمانے کے شوربا اور جوار کی روٹی میں ۔خیرات میں جوار کی روٹی کو پکانے کے لیے سب محلے کے عورتوں کی خدمات لی جاتی تھی ،خیرات سے ایک دن پہلے جوار کی آٹے کو محلے میں تقسیم کی جاتی جسے پکانے کے بعد خیرات کرنے والے کے حوالے کی جاتی تھی ۔میں
نے اپنے بچن میں تھل میں ایک ایسا ہی خیرات دیکھا تھا جس میں ہم نے گھر ہی سے اپنے ساتھ مٹی کی برتن لے گئے تھے ۔
وہاں پہنچ کر ہم مقررہ جگہوں پر بیٹھ گئے اور ایک صاحب نے شوربا پیش کی ،پھر جوار کی روٹی ،اس
کے بعد ایک صاحب نے گرم چربی اور دوسرے صاحب نے گوشت پیش کی ۔یقین کیا حسین رواج اور روایات تھی جسے ہم بھلاگئے ہیں دیر کوہستان اور سوات کوہستان کے لوگ ایک ہی نسل اور قبیلے کے لوگ ہے ۔دونوں جگہ آباد قوم کی زبان ،ثقافت ،رہن سہن،تہذیب اور تمدن ایک ہے ۔گزشتہ دنوں کالام میں اس روایت کو دوبار زندہ کرنے کے لیے اسی طرح ایک خیرات کا انتظام کیا تھا جس میں تحصیل ناظم حبیب اللہ ثاقب نے شرکت کیا تھا ۔اس پر لطف اور حسین مو قع پر اپنے فیس بک پر سٹیٹس اپڈیٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "کالام کا روایتی کھانا جسے مقامی زبان میں چمہ کیل کھانا کہا جاتا ہے
یہ پسندیدہ، ٹیسٹی اور قدرتی کھانا ہوتا ہے۔ یہ کھانا بغیر کسی مصالحے کے سادہ پانی میں دیگ میں گوشت پکا کر تیار کیا جاتا ہے ۔ اور اس سادہ شوروا کو مٹی کے برتن میں ڈال کر مکئ کی روٹی اس شوروا میں مکمل مکس کیا جاتا ہے۔ اس بعد اس کھانے میں مٹی کے مخصوص برتن سے خالص دیسی کھی ڈال کر مکس کیا جاتا ہے۔ اسکے بعد دیگ میں پکا ہوا سادہ گوشت ہر آدمی کو ہاتھ میں دیا جاتا ہے۔
لو جی کالام کا روایتی کھانا تیار ہے۔ گوشت کی بوٹی لو اور کھانے کے ساتھ ملاکر کھانا شروع کرو۔
لیکن یاد رکھے کہ کھانے کے بعد میزبان کے حق میں دعا مانگنا لازمی ہو تا ہے۔"
کالام میں اس حسین اور تاریخ ساز روایت کے بعد اب پھر و ہ امید لوٹ آیا ہے کہ دیر کوہستان میں بھی لوگ اس طرح کے خیرات اور صدقات کا اہتمام کرے گی جس کی وجہ سے ہم سے گم ہو جانے والے یہ حسین اور پر لطف روایت دوبارہ زندہ ہو جائے گی ۔
حبیب اللہ ثاقب صاحب خود عام لوگوں کے درمیاں کھانے میں مصروف ہیں |
تحصیل ناظم حبیب اللہ ثاقب اپنے ہاتھوں سے لاگوں کے لیے شوربا برتن میں ڈالنے میں مصروف ہیں |
کچھ تصاویر ی جھلکیاں