تحریر ناصرزادہ
آگ کی چینگاریوں نے دیر بالا ڈوگدرہ کے رہائشی ہمیش گل کا ہنستا بستا گھر اجھاڑ دیا
دیر بالا کے ہیڈ کوارٹر دیر حاص سے تقریبا ستر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع دشوار گزار علاقہ ڈوگدرہ بابوزئی نامی گاوں میں اتوار کی رات ایک دل خراش واقع رونما ہوا ،بابوزئی کے رہائشی ہمیش گل کا ہنستا بستا گھر آگ کی ایک شعلے نے ہمیشہ کے لیے ویران کر دیا روزنامہ آئین کے رپورٹر ناصرزادہ نے جائے حادثہ پر جاکر کیا دیکھی اور عینی شاہدین نے ان کو اس خوفناک حادثہ کے روئیداد کیسے بیان کی آئے قارین اپ بھی جان لیں ہمیش گل کے انکھوں میں آنسو اور چہرے پر غم کے اثرات نمایا تھے تاہم حوصلہ سے کام لیتے ہوئے حادثے کی داستان سنانا شروع کر دیا میں اپنی بچوں کیساتھ ہر سال موسم گرما میں گھر سے دور پہاڑ میں واقع بانڈہ جاتے تھے جہاں پر موسم گرما کے چند مہینے گزار کر پھر موسم سرد ہوتی ہی اپنے گھر واپس لوٹ آتے اس سال بھی ایسا کیا اور اتوار کے روز بانڈہ (عارضی مکان) اپنے گھر جو کہ بابوزئی کے گاؤں میں واقع ہے آئی اور رات کی دس بجے گھر پہنچ گئے گھر کے اوپر منزل میں دو کمرے ایک کمرے میں میں محو خواب تھا اور دوسرے کمرے میں بدقسمت چھ بچے رات بارہ بجے میں نے بچوں کی رونے کی آوازیں سنی تو باہر نکلا تو دوسرے کمرے کو آگ نے لپیٹ میں لیا تھا میں نے بہت کوشش کی لیکن آگ بے قابو تھا اور بچے اندر سے آوازیں دے رہے تھے کہ بابا مجھے بچائے با با مجھے بچائے تاہم میری کوئی بس نہیں چلتا ہے کہ اپنے جگر گوشوں کو بچالو ان بچوں کی آوازیں اب بھی میرے دماعوں میں گونج رہی ہیں اور میں ایسا محسو س کر تا ہوں کہ وہ اب بھی مجھے پکارتے ہے لیکن میں ایسا بدقسمت باپ ہوں کہ میں اپنے چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کو نہیں بچایا انہوں نے کہا کہ میرے بیس سالہ بیٹی مریم بی بی حافظہ قران تھی اور اگ کی وقت باقی تین بیٹیا تسلیم بی بی عمر اٹھارہ سال وریسیہ بی بی عمر سولہ سال نسرین عمر چودہ سال اور مدثر پانچ سالہ جبکہ ایک رشتہ دار بچی سمینہ بی بی عمر بیس سال ایک ہی جگہ اکٹھی ہوئی اور ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی تھی اور مدد کے لیے پکار رہے تھے عینی شاہدین نے کہا کہ مسجد میں اعلانات ہوئے اور ہوائی فائرنگ ہوئی تو ہم اس حادثے کی جگہ پر پہنچے تو کمرے میں موجو د بچے چیخ رہے اور منت سماجت کر رہے کہ اللہ کے لیے ہمیں بچائے لیکن آگ اتنی خوفناک تھی کہ ہم کمرے کے اندر نہیں جاسکتے پھر امدادی کاروائی میں حصہ لینے والے افراد نے دیوار میں ایک سوراخ کر لیا اور بچوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوشش بے سود رہی اور چھ بچے اپنی حالق حقیقی سے جاملے تھے نمازہ جنازہ میں حصہ لینے والے افراد نے بتایا کہ پانچ بچوں کی شناخت ممکن نہیں تھی جبکہ حافظ قران بچی کی چہرے سے شناخت ممکن تھی ۔ پورے واقعے پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیش گل کا تعلق ایک عریب خاندان سے ہے اور محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کے لیے گھر بسایا تاہم ایک حادثے نے ان کے پانچ پھول جیسے بچے اور گھر اجھاڑ دیا اور ہمیش گل کی تین بچے اور بیوی باقی رہی جبکہ گھر اور گھر میں موجود نقدی ،سونا اور سامان مکمل خاکستر ہوگئے، جائے حادثہ پر سیاسی جماعتوں کے مقامی کارکن اور رہنما نے دور کیے تاہم کسی بھی افسو س اور تعزیت کے علاوہ کچھ نہیں کیا، ڈی پی او اپر دیر پیر شہاب علی شاہ نے بھی متاثرہ گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان کیساتھ نقد امداد اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائے تاہم مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہمیش گل نے پہلے سے اپنی گھر کافی محنت اور عربت میں تعمیر کیاتھا اور ان کے ساتھ تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہیں علاقہ مکینوں نے صوبائی حکومت ،وفاقی حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ متاثرہ ہمیش گل کے ساتھ مالی مدد کی جائے تاکہ وہ دوبارہ اپنے گھر آباد کریں۔