ایک چھوٹا سا سوال
چھوٹا سا ایک سوال یہ ہے: اگر کسی نے کچھ چرایا نہ ہو تو تلاشی دینے میں تامّل کیا؟ عجیب بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے چرایا بھی کچھ نہیں اور تلاشی کی بات سننے کے روادار بھی نہیں۔
لندن پلان کا شوشہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس سے زیادہ یہ کہ انکشاف قومی اسمبلی کے سپیکر نے کیوں کیا؟ تحریکِ انصاف ایسی معمولی پارٹی اور عمران خان ایسے معمولی آدمی کے بارے میں بات کرنا وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف یا خادمِ پنجاب کے شایان شان نہیں۔ وزرا کی ایک فوج ظفر موج بھی تو ہے۔ ادھر عمران خان ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں‘ ادھر ان میں سے کوئی نمودار ہوتا ہے۔ پھر وزارت اطلاعات کے دفتر میں ایک عدد پریس کانفرنس برپا کی جاتی ہے۔ ایک آدھ نہیں بعض اوقات دو تین وزیر یا وزارت کے امیدوار فکر و نظر کے موتی رولتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے سپیکر کا منصب بہت ہی معتبر مانا جاتا ہے۔ ابھی کل تک اس بدنصیب ملک میں بھی اس عہدے کی کچھ آبرو باقی تھی۔ فخر امام‘ ملک معراج خالد‘ حامد ناصر چٹھہ‘ گوہر ایوب ایسے لوگ اس پر فائز رہے۔ بارہا حکومتوں کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ فخر امام نے تو اپنے عہدے کی قربانی ہی دے دی۔ جناب ایاز صادق کیا اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ایوان سے باہر خاموشی ہی روا رکھیں؟ متنازعہ موضوعات پر اظہار خیال سے ہی گریز کریں؟
سپیکر صاحب کا مسئلہ کچھ اور لگتا ہے۔ 2013ء میں ان کی کامرانی‘{ کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ عدالت نے‘ ظاہر ہے کہ دھاندلی کی بنیاد پر۔ دوسری بار کی کامیابی بھی مشکوک ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ لاہور کے دوسرے حلقوں سے کم از کم اٹھارہ‘ انیس ہزار ووٹ اس حلقے میں منتقل کئے گئے‘ جبکہ کئی ہزار اس حلقے سے نکال کر دوسروں میں پہنچا دیئے گئے۔ قانونی طور پر یہ عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ چند درجن یا چند سو ووٹ‘ یہاں سے وہاں چلے جاتے ہیں‘ پانچ برس میں! ایک طریق کار ہے‘ الیکشن کمیشن سے ایک عدد فارم حاصل کرنا پڑتا ہے‘ مندرجات اس میں رقم ہوتے ہیں۔ دفتری کارروائی سے گزر کر‘ یہ سلسلہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ اب کی بار چند سو ووٹوں سے سردار ایاز صادق کی خیرہ کن فتح میں‘ اس عمل کا سراغ ہی نہیں ملتا۔ دستِ غیب نے راتوں رات کرشمہ کر دکھایا۔
ہمارے سیاسی نظام کی‘ جسے جمہوریت ہی کہا جاتا ہے‘ روایت یہی ہے کہ شاذ ہی انتخابی تنازعات کا ایک آدھ برس میں فیصلہ ہوا کرتا ہے۔ اکثر اگلے الیکشن تک معاملے کو گھسیٹا جاتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے حلقوں کی صورت حال یہی ہے۔ معلوم نہیں‘ الیکشن کمیشن کا مصرف کیا ہے؟ نون لیگ اگر سچی ہے تو معلوم نہیں کہ بروقت فیصلے وہ کیوں ممکن نہیں بناتی۔ سپیکر صاحب والا تنازعہ تین برس تک جاری رہا۔ سیاسی اخلاقیات کا کم از کم تقاضا یہ تھا کہ وہ اس منصب پر فائز نہ کئے جاتے۔ جس امیدوار کے بارے میں یقین ہی نہیں کہ واقعی وہ قومی اسمبلی کا ممبر ہے‘ اسی کو سپیکر بنانا کیوں ضروری تھا؟ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان وہ توازن کیسے قائم رکھ سکتا ہے؟ نازک فیصلے اسے صادر کرنا ہوتے ہیں۔ ایک جج کی سی غیر جانبداری اور انصاف پسندی کا مظاہرہ وہ کیسے کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ سرکاری بیساکھیوں کی اسے ضرورت رہتی ہے۔ احساسِ جرم کا وہ شکار رہتا ہے۔
اسی ذہنی کیفیت میں سپیکر صاحب فریق بن گئے ہیں اور وہ بھی اس لشکر ایسے فریق‘ جس کا ذکر اس روز اعتزاز احسن نے کیا۔
پختہ کار جمہوریتوں میں سپیکر کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے۔ ایک مدت پوری کرنے کے بعد‘ دوسری بار وہ سپیکر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرے تو مخالف جماعت اکثر امیدوار ہی کھڑا نہیں کرتی۔ لگتا ہے کہ ایاز صادق صاحب کو ابھی تک اپنے سپیکر ہونے کا یقین نہیں آیا۔ اسلام آباد میں‘ ایک معروف کاروباری تنظیم کی تقریب چند ماہ قبل منعقد ہوئی۔ سپیکر صاحب مہمان خصوصی تھے۔ فراواں حیرت کے ساتھ دیکھا گیا کہ دس پندرہ منٹ تک ان کا تعارف کرایا جاتا رہا۔ محترم خاتون سیکرٹری سے‘ جو تعلیمی دنیا کی جانی پہچانی شخصیت ہیں‘ وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے بتایا: یہ تعارف نامہ خود سپیکر صاحب کی طرف سے بھجوایا گیا۔ ''ہم نے تو اس کا ایک تہائی حصہ ہی پڑھ کر سنایا‘‘۔ مکمل دستاویز ان کے ہاتھ میں تھی‘ جس کی نقل ازراہ کرم‘ انہوں نے مجھے عطا کر دی۔ بوریت کا‘ قارئین کی ناراضی کا اندیشہ ہے‘ وگرنہ میں اسے نقل کرتا۔ اس میں یہ بھی درج ہے کہ تین برس میںکب کب‘ کس کس ملک‘ کس کس شہر کو ان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔
ذہنی مریضوں کے عالمی دن پر‘ آج ایک ماہر نفسیات نے کہا کہ اکثر پاکستانی لیڈر طبّی معائنے کے محتاج ہیں۔ خیر‘ سپیکر صاحب تو ذہنی طور پر بہت مستعد اور کارگر نظر آتے ہیں۔ کسی ماہر نفسیات کو مگر ان کی اتنی سی مدد ضرور کرنی چاہیے کہ انہیں سپیکر ہونے کا یقین آ جائے۔ پھر سرکاری دانشوروں میں سے کسی کو انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے منصب کے تقاضوں کا خیال رکھیں تو اس سے ان کی عزت میں اضافہ ہو گا‘ کمی ہرگز نہ آئے گی۔
تو وہ لندن پلان؟... شیخ رشید اگر اس لیے لندن پہنچے ہیں کہ علامہ طاہرالقادری کو دھرنے میں شرکت پر آمادہ کریں تو یہ قابل فہم ہے۔ ان کی ساری سیاست اس طرح کی شعبدہ بازیوں سے روشن رہتی ہے۔ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ‘ ان کی ممتاز پارٹی کو حاصل ہے اور وہ بھی عمران خان کے طفیل۔ وہ ٹی وی پر سنسنی خیز ٹی وی انٹرویوز کے بل پر زندہ ہیں‘ جو مقبولیت کی دوڑ میں دیوانے ٹی وی میزبانوں کی ضرورت ہیں۔ تحریکِ انصاف کو علّامہ صاحب سے سلسلٔہِ جنبانی کے لیے ان کی ضرورت بہرحال نہ تھی۔ عمران خان سے‘ وہ ایک ٹیلی فون کال کے فاصلے پر ہیں۔ چوہدری سرور سے میری بات ہوئی‘ جب وہ لندن کے ہوائی اڈے سے باہر نکل رہے تھے۔کہا کہ وہ فقط کشمیر پر پاکستان کا موقف اجاگر کرنے آئے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ بہت سی اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ ہے۔ تفصیل واپسی پر وہ بیان کر دیں گے۔ جہانگیر ترین سے رابطہ نہ ہو سکا مگر ان کے قریبی دوست اسحٰق خان خاکوانی نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں سے ملنے گئے ہیں‘ چار پانچ دن میں لوٹ آئیں گے۔ چوہدری سرور سے پوچھا گیا: دونوں ایک جہاز سے کیوں تشریف لے گئے؟ کہا؛ یہ محض اتفاق ہے۔ میری معلومات کے مطابق دونوں کے مراسم کچھ ایسے خوشگوار نہیں۔ عمران خان نے اگر اپنی پارٹی کے دو لیڈروں کا گروپ بھیجنا ہوتا تو ان دونوں کا انتخاب ہرگز نہ کرتا۔
عصر حاضر کے سب سے بڑے علّامہ‘ تحریک انصاف سے ناراض ہیں۔ ان کے دورے کا پروگرام طے شدہ ہے اور وطن واپسی کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ دو عدد نیم سرکاری اخباروں میں لندن پلان کے سلسلے میں سازشوں کی تفصیلات چھپی ہیں۔ مگر یہ زیادہ تر 2014ء کے دھرنے کی روداد پر مشتمل ہیں یا اس دعوے کی تفصیل کہ وقائع نگار نے اس سے پہلے قوم کو کس طرح باخبر رکھا۔ شواہد اس میں کوئی نہیں۔ فرض کیجئے‘ تحریکِ انصاف والے غلط بیانی کے مرتکب ہیں تو کچھ دن میں بات کھل جائے گی۔
باخبر لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت نے اب کی بار مظاہرین سے سختی کے ساتھ نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق پروپیگنڈے کی یہ مہم‘ اسی لیے شروع کی گئی۔ فی الحال لیڈر اور دانشور کرتب دکھائیں گے۔ پولیس کو بعد میں برتا جائے گا۔ گرفتاریاں ہوں گی‘ ضرورت پڑی تو لاٹھیاں برسیں گی اور شاید کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ ایک آدھ دن کے لیے عمران خان کو بھی نظربند کیا جا سکتا ہے۔ خدانخواستہ خون بہا تو کپتان کو فساد فی الارض کا مرتکب اور واجب القتل قرار دے دیا جائے گا۔ میڈیا سیل موجود ہے۔ محقق مہیاّ ہیں۔
چھوٹا سا ایک سوال یہ ہے: اگر کسی نے کچھ چرایا نہ ہو تو تلاشی دینے میں تامّل کیا؟ عجیب بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے چرایا بھی کچھ نہیں اور تلاشی کی بات سننے کے روادار بھی نہیں۔
No comments:
Post a Comment