دیر کوہستان کو درپیش مسائل
پاکستان کا جنت نظیر وادی دیر کوہستان جو اپنے دامن میں بہت ہی خوبصورت اور دلکش نظارے سما چکے ہیں کو 1963 سے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے ۔پاکستان کے قیام کے بعد نواب دیر نے پاکستان کے ساتھ الحاق ہونے سے انکار کردیا جس کے بعد 1963 میں دیر کو پاکستان میں شامل کیا گیا ۔نواب دیر کے وقت دیر میں تو ترقی کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھا۔نواب دیر نے سفید کپڑے پہننے ،گھروں کو چونا یا سفید رنگ ،گھروں کے چتوں پر ٹین کی چادریں ڈالنا وغیر وغیر منع فرمایا تھا،تعلیم کے حصول پر اس قدر پابندی تھی کہ اگر کوئی دیر سے باہر بھی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا تو ان کے خاندان والوں کو تنگ کیا جارہا ہے ۔خیر نواب سے چھٹکارا پانے کے بعد دیر میں پہلی بار 1970 میں انتخابات کیے گئے جس میں جماعت اسلامی کا صاحبزادہ صفی اللہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہواتھا اس کے بعد 1996 میں دیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیر پائین اور دیر بالا کر دیا گیا ۔لیکن 1963 سے لیکر آج تک دیر کوہستان کو پسماندہ رکھا گیا ہے ۔سڑک کا حال دیکھ ایسا لگ رہا ہے کہ گاڑیاں کسی آفت ذدہ علاقے کو جارہی ہو۔تحصیل ناظم کلکوٹ تاجبر خان نے خیبر ٹی وی کے پروگرام "نوے سحر " میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں کہا کہ کمراٹ جنت ہے براستہ دوزخ یعنی اگر آپ اس جنت نظیر وادی کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو دوزخ کے راستے گزرنا پڑے گا۔سڑک کے بعد سب سے ابتر صورتحال اور سب سے اہم مسئلہ ہے صحت کی۔صحت کی سہولیات نامی کوئی چیز نہیں ہے دیر کوہستان میں ۔دیر بالاکے ہیڈکوارٹر دیر خاص کے علاوہ کوہستان میں کہیں بھی کوئی مرکز صحت موجود نہیں ۔شرینگل جو دیر خاص کے بعد کوہستان کے اہم مقام ہے میں بھی کوئی خاص علاج معالجے کا بندوبست نہیں ،صرف چند ڈاکٹر بیٹھے ہیں جن کے بارے میں علم نہیں کہ وہ ایم بی بی ایس بھی ہے کہ نہیں ،شرینگل سے کمراٹ تک لاکھوں افراد صرف اور صرف میڈیکل ٹیکنیشن پر ہی گزار ا کیے ہوئے ہیں ۔گاڑی میں دیر جارہا تھا کہ گاڑی کنڈیکٹر نے مزاح کے طور پر پاتراک کے ملحقہ علاقے کے ایک بزرگ کو ایک واقع سنائی ،کنڈیکٹر کہ رہا تھا کہ گوالدی کے کچھ افراد مردان میں رہ رہے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے آبائی گاؤں کیوں واپس نہیں آرہے تو انہوں نے جواب دیا کہ عید کے دن گوالدی میں ایک شخص بیمار پڑھ گیا ،پاتراک میں علاج معالجہ کیا کچھ آفاقہ نہیں ہواتو پھر دیر اور آخرکار تیمرگر ہ تک جا پہنچے تو ڈاکٹر صاحب نے 650 روپے کی دوائی لکھ کر گھر واپس بھیج دیے ،جب ہم گھر پہنچ گئے تو حساب کتاب لگایا ،کرایہ پر26000 روپے اور دوائی پر 650 روپے خرچ آیا تھا ۔تو ہم کیوں گوالدی واپس شفٹ ہوجائیں ۔صحت کے بعد سب سے اہم مسئلہ تعلیم کی ہے ۔تعلیم کے حوالے سے تو دیر کوہستان بلکل صفر ہے ،تعلیمی ادارے تو ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ،پاتراک سے لیکر کمراٹ تک کئی پرائمری،میڈل ،ہائی اور ہائیرسیکنڈری سکولز ہیں لیکن ان میں تعلیمی نظام انتہائی ناقص ہیں ۔سکولوں میں ہر ایم پی اے نے اپنے من پسند افراد کو بھرتی کیے ہوئے ہیں جو علاقے کے ملک اور بااثر شخصیات ہیں وہ کہاں ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں ۔دیر کوہستان کے نئے سب ڈویژن کلکوٹ میں واقع گورنمینٹ ہائرسیکنڈری سکول کلکوٹ میں ایک درجن سے زیادہ چوکیدار ،لیب آٹینڈنٹ وغیر وغیر ہے لیکن ڈیوٹی کے لیے ایک دو سے زیادہ موجود نہیں ،سناہے کہ کلکوٹ میں واقع اس سکول میں اساتذہ اپنے کلاس فور ملازمین سے پانی تک نہیں مانگ سکتے ہیں کیونکہ ملازمین سارے بدمعاش اور ملکانان علاقہ ہے اور وہ اساتذہ تو درکنار اپنے ہیڈ کو بھی نہیں مانتے ۔
No comments:
Post a Comment