Tuesday 17 December 2019

SHAHI FORT DIR UPPER KPK

شاہی قلعہ دیر
Dir Historical Royal Forte.
  تحریر:-گمنام کوہستانی
ایک وقت تھا کہ آسمار افغانستان سے لے کر سخاکوٹ ملاکنڈ تک اس پورے علاقے پر اس قلعے کا راج چلتا تھا۔ وقت کے بڑے بڑے لوگ یہاں آنا اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے اور آج یہ حال ہے کہ دیر سے باہر کوئی اس کے بارے میں جانتا تک نہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق دیر خاص میں واقع شاہی قلعہ بدھ مت کے آثار پر تعمیر کیا گیا ہے۔ 1804 میں دیر خاص پر خان ظفر خان کے حملے سے پہلے یہاں کافرستان کے حکمرانوں کے رعبناک برج کھڑۓ تھے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ 1804 تک داروڑہ '' خان کس" تک کا علاقہ پشتون عملداری میں آتا تھا۔ داروڑہ سے آگے اس پورے علاقے میں براول ( براہول) سے لیکر کمراٹ تک اور لواری سے لیکر داروڑہ تک دارد کوہستانی آباد تھے۔ اس وقت دیر کوہستان کافرستان کا ایک اہم حصہ تھا۔ 1804 میں خان ٖظفر خان نے یوسفزیوں کے لشکر کے مدد سے دیر خاص پر حملہ کیا اور یہاں حکمران کوہستانی خاندان کو قتل کرکے مقامی دارد کوہستانی لوگوں کو کوہستان اور آس پاس کے دوسرے دروں میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ پرانے قلعے کو مسمار کرکے نیا قلعہ بنایا اور یہاں بیٹھ کر حکمرانی کرنے لگا۔ اس کے بعد جب نواب اورنگزیب حکمران بن گئے تو انہوں نے کشمیر سے کاریگر منگواکر جدید طرز کا محل بنایا۔ 1933 میں نواب شاہ جہان کے دور میں یہاں آگ لگی جس کے وجہ سے محل کا بیشتر حصہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوا۔ سلیمان شاہد اس بارے میں لکھتے ہے" مشہور روایت ہے کہ 1933 میں نواب شاہ جہان نے ایک بزرگ کو بے عزت کرکے محل سے نکالا، جیسے ہی وہ باہر نکلے دربار میں آگ لگ گئی اور آندھی چلنے لگی۔ محل کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھ کر سپاہیوں اور درباریوں کی دوڑیں لگ گئی۔ مرد و زن سب لوٹے مٹکے لئے دریا کی طرف دوڑے۔ پانی لاکر آگ پر ڈالا جا رہا تھا مگر شعلے تھے کی بلند ہو رہے تھے۔ نواب ایک طرف کھڑا "میخ زین" کو بچانے کیلئے پکار رہا تھا " ( گمنام ریاست حصہ دوم ص 73 )۔۔
خیر نواب صاحب نے "میخ زین" بچایا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن محل جل گیا۔ بعد میں ازسرنو تعمیر کے لئے اینٹوں کی بٹھیاں بنائی گئی، چونا جوغابنچ کی کانوں سے نکالا گیا جبکہ شیشہ، ہارڈ ویئر اور سینٹری کا سامان گران جان نامی شخص کے ہاتھوں ہندوستان سے منگوایا گیا۔ چھت ٹین کے چادروں سے بنائی گئی جبکہ عمارتی لکڑی کوہستان کے جنگلات سے لائی گئی۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ لکڑی راجکوٹ ( پاتراک) سے لائی گئی ہوگی کیونکہ کوہستانیوں نے نوابان دیر کو جتنی بھی لکڑٰی وغیرہ دی ہے وہ زیادہ تر گوالدی کے جنگلات سے کاٹی گی ہے۔ مستطیل شکل میں پھیلے ہوئے اس قلعے کے اندر دربار، شاہی محل، اسلحہ کارخانہ اور اسلحہ گودام واقع ہے۔ گودام کے متصل نواب صاحب کی ذاتی گاڑیوں کا گیراج ہے۔ شاہی محل دو حصوں پر مشتمل ہے۔ زنانہ و مردانہ ۔ دونوں حصے تقریباٰ ایک ہی طرز پر بنائے گئے ہیں۔ ایک حصہ نواب کی ذاتی رہائش گاہ تھی۔ اس دو منزلہ حویلی کی پہلی منزل پر چار بڑے ہال۔ ایک ویٹنگ روم، ایک ڈائیننگ ہال اور ایک گودام جبکہ دوسری منزل بھی کئی کمروں پر مشتمل ہیں۔ محل کے اندر گول ستونوں کے علاوہ بالکونیوں پر بھی عمدہ نقش نگاری کی گئی ہے۔ محل کے صدر دروازے پر دو توپیں نصب ہیں۔ یہ توپیں ڈیڑھ کلومیٹر تک گولہ پھینک کر دشمن کے قلعے کے مضبوط برج کو اڑانے کی صلاحیت رکھتی تھی جسے اسی قلعے کے اندر واقع اسلحہ کارخانے میں تور کابلے اور کابلے استاذ نام کے دو اسلحہ انجینیئرز نے بنایا ہے۔ دیر خاص میں ڈھلوان نما جگہ پر واقع اس گمنام قلعے کے بارے میں اگرچہ آج بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن اپنے عروج کے دنوں میں اس قلعے نے یہاں بڑے بڑے لوگوں کو سر جھکا کر بات کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ برٹش ہندوستان کو چترال تک رسائی کا مسلئہ ہو یا ریاست پاکستان سے الحاق کا مسلئہ اس قلعے میں بیٹھے ہوئے شخص نے ہندوستان، افغانستان اور انگلستان کے حکمرانوں کی نیندی اڑائی تھی۔ 

Sunday 17 November 2019

KASHMIR AND DIR

کشمیر اور دیر ۔۔
Kashmir and Dir, kumratvalley, how_to_reach_kumratvalley,kurmatvalley,kumrat #valley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
kumrat valley, hotels in kumratvalley, hotels in kumratvalley, hotel in kumrat, how to reach kumrat,
best hotel in kumrat, best hotel in kumratvalley, facilities in kumaratvalley, 
tourism in pakistan, tourism in kp, kundol lake, mahodand lake, places to visit in kumrat valley, kumrat valley waterfall,kumrat valley map,
katora lake location,kumrat valley to katora lake distance, kumrat valley hotels
Jehazbanda, How to reach Jehazbanda, Hotels_in_Jehazbanda, Jehazbanda_Spots, Picnic Spot at Jehazbanda, Jehazbanda 
#lakes at kumratvalley, #katoora lake, Jamia Masjid Thall, Historical Jamia Masjid Thall, daily kumrat, kumrat news, #kumratvalley #kumrat  #how_to_reach_kumratvalley
#kurmatvalley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat_valley #hotelsInKumratvalley #hotels_in_kumrat #hotelInKumrat #howtoreachkumrat
#kumrat_vally_hotels #best_hotel_in_kumratvalley #facilities_in_kumaratvalley
#tourism_in_pakistan #tourism_in_kp #hotels #kumrat #BestSportKumrat #map_of_kumrat #map_of_kumratvalley
#KalamToKumat #Utrorvalley #BadgoyePass #BadgoyeTop #Dasht_e_Laila #Mahodand #mom_tuch_Hotel_kumrat #Hotel_grand_palace
#HowToReachKumrat #Local_Transport_to_Kumratvalley #Local #Transport #kumrat #KundBanda #kunrBanda 
#JehazbandaHotel #Hotels_in_Jehazbanda #RouteToJehazbanda #KumratWaterfall #Kumrat_Forest #tourism
#KumratValleykpk #kumrat #kpk #gilgitbaltistan #Pakistan #kkh #karakoramhighway #roadadventure 
#roadtrip #attabadlake #baldiyaat #lakelovers #hiking #hunzavalley #travelphotographer 
#travelphotography #instatravel #mountain #mountainscape #wanderer #Wanderlust #agameoftones 
#trekking #adventure #artofvisuals #beautifuldestinations #beautifulpakistan #northernareaofpakistan 
#instadaily
گمنام کوہستانی کے قلم سے
1947 میں جب کشمیر میں طبل جنگ بج گیا، ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہوئی اور سوات کے والی نے سرکاری دستے کشمیر روانہ کئے تو پورے دیر میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی۔ عوام نے احتجاج شروع کیا لیکن نوابان دیر نے کوئی دھیان نہ دیا۔ سلیمان شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ " عبدالمناف، شیر احمد خان اور قاضی شمش الرحمان کی نگرانی میں لوگوں نے ایک جلوس نکالا جس میں حکومت سے جہاد میں شرکت کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جلوس میں عبدالشکور نامی نوجوان ڈفلی ( تمبل ) کے ساتھ یہ ترانہ گا رہا تھا
شمشیر په لاس کې ګډہ ووم دا دین غزا له زمه دا دین آباد له زمه
جب نواب کو خبر ملی تو مذکورہ مشران پر قتل کے برابر پانچ سو روپیہ جرمانہ لگایا گیا، ( گمنام ریاست، حصہ دوم ص 122 ) ۔۔۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ نوابان دیر کی ذاتی دلچسپی کے وجہ سے دیر کے عوام نے بڑھ چڑھ کر اس جنگ میں حصہ لیا تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نہ تو نوابان دیر کو کشمیر میں دلچسپی تھی اور نہ وہ چاہتے تھے کہ دیر کے عوام دیر سے باہر نکلیں، کیونکہ اگر لوگ باہر جائیں گے تو دنیا دیکھیں گے جس سے اس کے اقتدار خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ جہاں تک جذبہ جہاد کی بات ہے تو نواب دیر انتہائی عیاش اور جابر حکمران تھا۔ بقول سلیمان شاہد صاحب
" نواب انتظامیہ بھی یہ اقرار کرتی ہے کہ کسی نے حکمران کو اسلامی ارکان جیسے نماز، روزہ، حج اور زکواۃ کی بجاآوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا" ( گمنام ریاست حصہ دوم ص 122 ) ۔۔ ایک جابر اور عیاش حکمران سے جہاد کی امید رکھنا حماقت تھی اس لئے عوام نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور پورے دیر میں انتشار پھیل گیا۔عوام کے جذبہ جہاد اور غیض و غضب کو دیکھ نواب دیر نے مجبور ہوکر سرکاری طور طبلِ جنگ بجایا۔ نوابِ نے فوجی دستوں کے نظم و نسق، نقل و حمل اور دیگر ضروری امور کا اہتمام ولی عہد محمد شاہ خسرو کے سپرد کرکے قوم کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ سلطان خیل، پائندہ خیل، نصرالدین خیل اور اوسی خیل۔ نصرالدین خیل قبائل کو ابتدائی دستوں میں روانہ کیا گیا۔ قبیلے اوسی خیل کا کام تھا میدان جنگ سے لاشیں اٹھانا اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا۔ سلطان خیل کو فرنٹ لائن پر لڑنے بھیجا گیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ریاست دیر کے حکمران قبیلے پائندہ خیل نے اس جنگ میں حصہ لینے سے انکار کیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ ہر اول دستوں میں براول، میدان کے علاوہ مشوانی، وردگ، ترکلانی، کوہستانی اور دوسرے کئی قبائل کے لوگ شامل تھے ۔ مجاہدین تیمرگرہ میں جمع ہوئے جہاں گیدڑو ( نوے کلے) کے مقام پر لشکر نے پڑاو ڈالا، یہ کوئی آج کل کے جہاد کے طرح صوم و صلواۃ والا جہاد نہیں تھا بلکہ اس وقت ڈھول سُرنا بج رہا تھا اور شمندوروزئی نام کی ایک رقاصہ ناچ رہی تھی۔۔۔
ادینزئی اور تالاش کے ریاستی ملازمین اور رضاکاروں پر مشتمل آٹھ سو افراد کا یہ لشکر دوسرے دن چکدرہ پہنچا، جہاں ولی عہد نے ایک پرجوش تقریر کی اور فتح و نصرت کی دعائیں مانگ کر لشکر کو رخصت کیا، اس طرح نومبر 1947ء کے اوائل میں ریاست کا پہلا دستہ عبداللہ جان تحصیلدار کے قیادت میں چکدرہ سے میر پور کے محاذ کے طرف بڑھا۔ 23 نومبر 1947ء کو دیر کا لشکر میر پور پر ٹوٹ پڑا، بزرگوں سے سنتے ہیں کہ مجاہدین کے اچانک اور غیر متوقع حملے کے وجہ دشمن گھبرا گیا اور لشکر شہر میں داخل ہوا۔ میر پور کوئی عام محاذ نہیں تھا بلکہ فوجی لحاظ سے یہ کافی مضبوط محاذ تھا۔ لشکر نے رات کو حملہ کیا اور صبح ہوتے ہی واپس اپنے مورچے کے طرف لوٹ آیا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ 24 نومبر کو لشکر نے آرام کیا اور 25 نومبر 1947ء کی صبح دوبارہ شہر پر ہلہ بول دیا۔ دس گھنٹوں تک گھمسان کی جنگ لڑنے کے بعد دشمن پسپا ہوا اور شہر دیر کے قبضے میں آگیا۔ لشکر 28 نومبر کو میر پور سے آگے بڑھا اور پیرکلے نام کے مقام پر قیام کیا۔ اس کے بعد لشکر " پونہ " سے ہوتے ہوئے " بید " پہنچا۔ دسمبر 1947ء میں میدان اور دیر خاص کا ایک اور فوجی دستہ محاذ پر پہنچا۔ بید سے دشمن کا فوجی ہیڈکوارٹر “دھرمسالہ” ایک میل کے فاصلہ پر تھا۔ دھرمسالہ کا یہ فوجی ہیڈکوارٹر کئی ایک مضبوط مورچوں میں گِھرا ہوا تھا، جن میں متلاشی، سریا اور مکڑی کے مورچے مضبوطی کے لحاظ سے مشہور تھے۔ ان مورچوں کی موجودگی میں مذکورہ فوجی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرنا مشکل کام تھا، لیکن دیر کے لشکر نے باقی دستوں کے آنے سے پہلے حملے کی تیاری شروع کی۔ مجبوری تھی ایک طرف اگر بید تک پہنچنے کا راستہ انتہائی مشکل تھا تو دوسری طرف دشمن کی فوج بھاری کمک کے ساتھ ضلع راجوڑی کے شہر نوشہرہ پہنچ چکی تھی، جہاں سے کوٹلی کی طرف پیش قدمی کرنے اور میرپور خاص پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی تھیں، تاخیر کی صورت میں میرپور بھی ہاتھ نکل جاتا۔ ان مورچوں میں متلاشی مورچوں کا سلسلہ مضبوط اور اہم تھا، ان مورچوں میں مشین گنوں کی پوری ایک بٹالین موجود تھی، کہا جاتا ہے کہ مورچوں میں موجود سکھ فوجیوں نے ایک دوسرے کو آہنی زنجیر سے باندھا ہوا تھا، تاکہ بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو ۔
24 دسمبر کو دیر کے لشکر نے عبداللہ جان تحصیلدار کے قیادت میں متلاشی پر حملہ کیا، ایک طرف جدید مشین گنوں سے لیس ایک تربیت یافتہ فوج تھی اور دوسری طرف یوبندے، پیتے اور تلواروں کلہاڑیوں سے لڑنے والے دیر کے قبائلی ۔ چھ گھنٹوں کی خون ریز لڑائی کے بعد دھرم سالہ پر بھی دیر کا لشکر قابض ہوگیا۔ دسمبر ہی میں دریائے جہلم کے کنارے واقع منگل کوٹ نام کا ایک اور قلعہ بھی لشکر کے قبضے میں آگیا۔ اس قلعے پر اس سے پہلے آزاد کشمیر کی فوج حملہ کر چکی تھی لیکن ایک ماہ کی لڑائی کے بعد بھی قلعہ قبضے میں نہیں آیا، دیر کے لشکر نے کشمیری فوج کے ساتھ مل کر اس قلعہ کو فتح کیا۔ دھرمسالہ کے لڑائی میں کمانڈر تحصیلدار عبداللہ جان زخمی ہوئے تھے اس لئے ان کی جگہ تحصیل دار حضرت علی کو کمانڈر مقرر کیا گیا۔ دھرم سالہ میں ہمارے بہت سارے لوگ شہید ہوئے تھے اس لئے لشکر کمزور ہوگیا تھا سو دھرمسالہ ہی میں قیام پذیر رہنے کو ترجیح دی گئی۔ 24 جنوری 1948ء کو دیر کا تیسرا فوجی دستہ دھرمسالہ پہنچ گیا جس کی کمان صوبیدار میاں عبدالغفار کو سونپی گئی تھی، ساتھ ملک رحیم اللہ جان نائب کمانڈر مقرر تھے۔ ایک دو دن کی آرام کے بعد لشکر رائے پور کی طرف روانہ ہوا اور نوشہرہ پر حملے کی تیاری کرنے لگا۔ نوشہرہ کے قریب شمال کی طرف “ٹائی” نام کی ایک پہاڑی چوٹی ہے۔ اس پہاڑی چوٹی پر نوشہرہ کے فوجی ہیڈکوارٹر کی حفاظت کے لیے تین مضبوط مورچے بناگئے تھے۔ 5 فروری 1948 کی رات کو لشکر نے رائے پور سے " باٹا " کے طرف بڑھنا شروع کیا، باٹا “ٹائی” کے دامن میں واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ صبح سویرے لشکر نے تینوں مورچوں پر بیک وقت حملہ کیا، پہلے مورچے پر براول کے دستے نے میجر گل ملا خان کی قیادت میں حملہ کیا۔ دوسرے مورچے پر رحیم اللہ خان کے دستہ نے حملہ کیا اور اور تیسرے پر صوبیدار سید محمود جان کی کمان میں جندول اور باجوڑ کے لوگوں نے حملہ کیا۔ دیر کا لشکر ڈٹ کر لڑا، پہلے حملے میں براول کا دستہ اپنے کمانڈر سمیت مورچہ کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا لیکن باقی دونوں دستوں کو دشمن نے دوسرے اور تیسرے مورچے میں داخل ہونے سے روک لیا۔ کچھ بزرگ کہتے ہیں کہ یہاں بارودی سرنگیں تھی اس لئے ہمیں شکست ہوئی کچھ کہتے ہیں کہ کسی نے دشمن کو مخبری کی اس لئے وہ ہمارے آنے والے ہر راستے سے باخبر تھا اور ٹھیک ٹھاک وہی گولیاں برسا رہا تھا، دیر کے لوگ تلواروں اور کلہاڑیوں سے تاریکی میں حملہ کرتے تھے جس سے دشمن کو حملے کی سمت کا پتا نہیں چلتا تھا، لیکن ٹائی میں دشمن کو دیر کی فوج کے نقل و حمل کا پورا پورا علم تھا۔ اس لئے اب حقیقت کیا ہے یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہاں دیر کا لشکر شکست کھا گیا۔ “ٹائی” پر حملہ دیر کے لشکر کو کافی بھاری پڑا، یہاں ہمارے تقریباٰ 600 سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ۔ سپہ سلار میجر گل ملا خان سمیت غفار میجر، محمد شاہ تحصیلدار اور ان کا بیٹا شمشیر، فضل غفور تحصیلدار، صوبیدار شیر افضل خان عرف کیر خان، رحیم اللہ جان، صوبیدار میاں عبدالغفار اور صوبیدار سید محمدو جان اور کئی نامی گرامی بہادر شہید ہوئے۔ (گمنام ریاست حصہ دوم ص 124)۔۔
اس جنگ میں سب سے زیادہ جانی نقصان براول کے لوگوں نے اٹھایا، براول کا دستہ اپنے کمانڈر صوبیدار میجر گل ملا خان کے قیادت میں مورچہ کے اندر تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا لیکن کمک نہ ملنے کے وجہ سے سب کے سب مورچہ کے اندر اکیلے ہی لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ٹائی میں شکست کھانے کے بعد زخمی لشکر نے دھرمسالے میں ڈیرہ ڈال دیا۔ اس دوران دشمن نے افواہ پھیلائی کہ نوشہرہ سے دشمن کی پیش قدمی ہو رہی ہے لیکن لشکر اس قابل نہ تھا کہ دشمن کا مزید مقابلہ کرسکے، 600 سے زیادہ جوان شہید ہوگئے تھے اور لاتعداد زخمی تھے اس لئے لشکر نے واپس میرپور اور جہلم کے طرف سفر شروع کیا۔ جب دیر کے لشکر نے واپسی شروع کی تو دشمن نے آگے بڑھ کر مقبوضہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا۔ اس دوران دیر کے مزید تازہ دم دستے محاذ پر پہنچ گئے تھے۔ بزرگوں سے سنتے ہیں جب دشمن نے مفتوحہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنا شروع کیا تو لشکر نے مفتوحہ علاقے کو دیر کی ملکیت ڈکلیر کرکے دوبارہ حملہ کیا اور مذکورے علاقوں پر قبضہ کرکے بیٹھ گئے یہاں تک کہ جنگ بندی کا اعلان ہوا جنگ ختم ہوئی ۔۔
کشمیر کی لڑائی میں ہمارے بزرگوں نے بھرپور حصہ لیا تھا، دیر کے ہر گاوں ہر علاقے سے لوگوں نے اس میں شرکت کی، اسے ریاست دیر کی جنگ قرار دینے والے غلط ہے اگر یہ ریاست لڑتی تو کیا نواب دیر کے قبیلے پائندہ خیل نے اس میں شرکت کی ؟؟؟۔ اس جنگ میں تقریباٰ دو ڈھائی ہزار لوگوں نے شرکت کی اور ان میں بہت کم ہی لوگ واپس آسکے، اکثریت وہاں شہید ہوئی جن لاشیں بھی اُدھر ہی رہ گئیں۔ والی سوات نے اس لڑائی میں شہید ہونے والے شہداء کے وارثین کو روپے دیئے، سپاہی کو ایک ہزار،حوالدار کو بارہ سو،اور صوبیدار کے لواحقین کو پچیس سو روپے دیئے گیئے لیکن دیر میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ جب ریاست پاکستان نے مجاہدین کے ورثاء کیلئے فی شہید ایک ہزار روپیہ مقرر کیا تو نواب صاحب نے بہانہ کیا کہ معاوضہ کم ہے۔ اس طرح شہداء کے لواحقین کو ملنے والا یہ وظیفہ ملاکند پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس پڑا رہا اور سینکڑوں ورثاء اس بھاری وظیفے سے محروم رہ گئے۔ کشمیر کے لئے دیر کی عوام بڑی بے جگری سے لڑے۔ ایک طرف جدید ہتیاروں سے لیس تربیت یافتہ فوج تھی تو دوسری طرف یوبندے پیتے جیسے قدیم بندوقوں اور کلہاڑیوں سے مسلح دیر کا قبائلی لشکر تھا جس نے ہر محاذ پر بڑی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ قلیل تعداد اور تلواروں کلہاڑیوں کے مدد سے ایک تربیت یافتہ مسلح فوج سے میر پور سے لے کر نوشہرہ تک کا پورا علاقہ قبضہ کرنا معمولی بات نہیں ہے۔
کہانی 1947 میں ختم نہیں ہوئی بلکہ قربانیوں کا سلسلہ ابھی حال تک چل رہا تھا۔1947 میں شروع ہونے والے اس جنگ نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا۔ جنگ کشمیر میں ہورہی تھی لیکن بچے ہمارے مر رہے تھے۔ کشمیر کی کونسی گھاٹی کونسے پہاڑ، کس دامن میں دیر کا خون نہیں گرا ؟؟؟۔ آج ہمارے کشمیر کے بھائی ناراض ہیں، کہتے ہیں پاکستان نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا۔ ہمیں دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ کشمیر کے لوگوں اس جرم میں پاکستان کے ساتھ ساتھ ہم قبائلی برابر کے شریک ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بزرگوں نے سچے مسلمانوں کی حیثیت سے خالص اسلامی جذبۂ جہاد کے تحت استقلال، مردانگی اور جرأت کے ساتھ کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑی لیکن یہ ہماری غلطی تھی۔ کشمیر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور کشمیر کے درمیان دیوار بنانے میں جتنا کردار ریاست پاکستان اور ہندوستان نے ادا کیا ہے اتنا ہی کردار ہم دیر کے لوگوں نے ادا کیا۔ ضروری نہیں کہ میری بات صحیح ہو لیکن فرض کیجئے اگر دیر کا لشکر حملہ نہ کرتا، میرپور سے لے کر نوشہرے تک پورے علاقے پر قابض نہ ہوتے تو آج کشمیریوں کے درمیان ایل او سی نام کی یہ دیوار ہوتی ؟؟؟۔ اگر پورا کشمیر متحد ہوتا، آزاد اور مقبوضہ کے چکر سے آزاد تو کیا ہندوستان اتنی آسانی سے اس پر قابض ہوسکتا تھا ؟؟؟۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہو لیکن آج کل اس بندر بانٹ کو دیکھ کر اور پھر اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو دیکھ کر مجھے یہی لگتا ہے کہ ہم لوگ کرائے کے ٹٹو تھے، شروعات ہم نے خود کی بعد میں ہمیں استعمال کیا گیا۔ ہمیں شاپر کے طرح استعمال کیا گیا جب ضرورت ختم ہوئی تو ہمیں باہر پھینکا گیا۔ کل جس مٹی کے لئے ہمارے بزرگوں نے خون بہایا تھا جس کے لئے آج تک ہمارے جوان لڑ رہے تھے آج ریاست نے خوشی خوشی اسے دشمن کے حوالہ کیا۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو ہمارے لوگ کیوں شہید کئے گئے ؟؟۔ ہمارے بزرگ، ہمارے جوان کس مقصد کے لئے شہید ہوئے ؟؟۔ کل جو مشران اس پورے کھیل کو مقدس جہاد کا نام دے رہے تھے آج وہ خاموش کیوں ہیں ؟؟َ؟ ۔ کیا کل جہاد تھا اور آج نہیں ہے ؟؟؟۔ کشمیر کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور کشمیریوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں جتنا کردار پاکستان، ہندوستان نے ادا کیا ہے اتنا ہی اہم کردار ہم نے ادا کیا ہے۔ پاکستان، ہندوستان سمیت ہمارے بزرگ اور علماء بھی کشمیریوں کے مجرم ہیں ۔

Monday 11 November 2019

CHAMAKEL, A LOCAL TRADITIONAL FOOD OFFERED DURING WEEDING AND ALMSGIVING PROGRAMS

چمکیل
Chamakel a local traditional  meal

 تحریر : نورلہدا شاہین
 کالام کوہستان اور دیر کوہستان سمیت انڈس کوہستان کے بعض علاقوں میں شادی بیاہ اور صدقہ و خیرات کے موقع پر تیار کی جانے والی اس ڈش کو ہم کالامی زبان میں ’چمکیل‘ کہتے ہیں۔ یہ ڈش مختلف علاقوں میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف ناموں سے پہچانی جاتی ہے مگر کوہستانی علاقوں میں اس کی تیاری کے اجزا اور طریقہ کار یکساں ہے۔ ہمارے ہاں کالام میں اس ڈش کی تیاری تقریب سے ایک دن پہلے شروع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم شادی کی تقریب پر بات کرتے ہیں۔ شادی کی تاریخ مقرر ہونے کے بعد بھینس یا گائے خریدی جاتی ہے۔ ہمارے بچپن میں ایک ہی بھینس سے کام چل جاتا تھا۔ آج کل آبادی بڑھنے کے باعث دو سے کم بھینسوں پر گزارہ نہیں ہوتا۔
اس کے ساتھ ہی مکئی کا آٹا اور خالص دیسی گھی خریدا جاتا ہے۔ شادی سے دو دن پہلے لڑکوں کی ٹولیاں بناکر پورے گاؤں سمیت اطراف کے علاقوں میں پیغام بھیجا جاتا ہے اور وہ ہر گھر کے دروازے پر جاکر اطلاع دیتے ہیں کہ پرسوں فلاں کے بیٹے فلاں کی شادی ہوگی۔ آپ سب لوگ کل حاضر ہوجائیں۔
یوں شادی سے ایک دن قبل دوسرے گاؤں کے عزیز و اقارب تحفے تحائف لیکر پہنچ جاتے ہیں اور گاؤں کے لوگ لکڑی کا بار پیٹ پر لاد کر لاتے ہیں تاکہ دیگ پکاتے وقت لکڑی کم نہ پڑ جائے۔ گاؤں کے ہر گھر سے ایک بندہ لکڑی لازمی لاتا ہے۔ اسی طرح شادی سے ایک دن قبل بھینیسں ذبح کی جاتی ہیں اور یہ ساری کارروائی رشتہ دار اور پڑوسی رضاکارانہ طور پر کرتے ہیں۔ شادی کے گھر والے صرف ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ گوشت کاٹنے کے بعد گوشت کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ شادی سے ایک دن پہلے عصر تک تیار کیا جاتا ہے اور گاؤں کے لوگ نماز عصر کے بعد پہنچ جاتے ہیں۔ مگر اس دوران شادی کے گھر میں ایک اور کام ساتھ چل رہا ہوتا ہے یعنی مکئی کا اٹا 5 کلو والے شاپنگ بیگز میں ڈالا جاتا ہے اور جہاں کھانا کھایا جاتا ہے، اس کے پاس ہی دو تین چارپائیاں بچھاکر اس کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے۔ گاؤں والے کھانا کھانے کے بعد خاموشی سے ایک شاپر اٹھاکر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور شادی کے گھر میں اگلے دن یعنی عین شادی کے دن کیلئے دیگیں چڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ دیگ میں صرف پانی، نمک اور گوشت ڈال کر اس کے نیچے دباکر آگ جلائی جاتی ہے اور رات بھر لوگ دیگوں کے ارد گرد چارپائیوں، پتھروں اور کرسیوں پر بیٹھ کر جگتیں اور گپ شپ کرتے رہتے ہیں۔ جب دیگ میں گوشت پک جائے تو آگ بجھا کر صرف کوئلہ رہنے دیا جاتا ہے تاکہ دیگ ٹھنڈا نہ ہوجائے۔
صبح ہوتے ہی گاؤں والے مکئی کی روٹی بناکر صاف ستھرے کپڑوں میں لپیٹ کر شادی والے گھر کا رخ کرتے ہیں۔ ادھر بارات کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ دن 11 سے 12 بجے کے درمیان بارات گھر پہنچ جاتی ہے اور اس کے بعد کھانا شروع ہوجاتا ہے۔ کھانے کیلئے کسی بھی کھلے میدان میں دو متوازن لکڑیاں رکھ کر ’پینڈہ‘ بنایا جاتا ہے یا پھر کسی بڑے ہال میں لمبا دسترخوان بچھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مٹی کے مخصوص برتنوں میں خالص سفید شوربہ ڈال کر مکئی کی روٹی کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھاتا جاتا ہے۔ لوگ روٹی اس میں اچھی طرح چوری کرتے ہیں۔ پھر ایک بندہ مٹی کے ایک اور مخصوص برتن میں دیسی گھی لیکر آتا ہے اور ہر برتن میں حسب ضرورت ڈالتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بندہ تیلیوں سے بنے ایک مخصوص برتن میں گوشت لیکر آتا ہے اور ایک بزرگ گوشت تقسیم کرتا جاتا ہے۔ لوگ ہر نوالے کے ساتھ تھوڑا سا گوشت بھی کھاتے ہیں اور بعض لوگ اپنے حصے کا گوشت روٹی کے ٹکڑے میں لپیٹ کر گھر لے جاتے تاکہ جو لوگ کسی وجہ سے شادی میں شریک نہ ہوسکے وہ بھی چھک سکیں۔
اس پوری تقریب میں صرف اشیا کی خریداری پر پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام سروسز گاؤں کے لوگ رضاکارانہ سرانجام دیتے ہیں یہاں تک کہ برتن دھونا، کھانا پیش کرنا اور آخر میں برتن اٹھانا گاؤں کا ہر فرد اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس میں بہت ساری کیوٹ باتیں مزید طوالت سے بچنے کیلئے چھوڑ دیں۔ اس خوبصورت کلچر پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر خیر۔۔۔ یار زندہ صحبت باقی

Sunday 29 September 2019

JANRYA BABA

جنڑیاں بابا
Janrya Baba, #kumratvalley #kumrat #valley #how_to_reach_kumratvalley
#kurmatvalley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat_valley #hotelsInKumratvalley #hotels_in_kumrat #hotelInKumrat #howtoreachkumrat
#kumrat_vally_hotels #best_hotel_in_kumratvalley #facilities_in_kumaratvalley
#tourism_in_pakistan #tourism_in_kp #hotels #kumrat #BestSportKumrat #map_of_kumrat #map_of_kumratvalley
#KalamToKumat #Utrorvalley #BadgoyePass #BadgoyeTop #Dasht_e_Laila #Mahodand #mom_tuch_Hotel_kumrat #Hotel_grand_palace
#HowToReachKumrat #Local_Transport_to_Kumratvalley #Local #Transport #kumrat #KundBanda #kunrBanda 
#JehazbandaHotel #Hotels_in_Jehazbanda #RouteToJehazbanda #KumratWaterfall #Kumrat_Forest #tourism
#KumratValleykpk #kumrat #kpk #gilgitbaltistan #Pakistan #kkh #karakoramhighway #roadadventure 
#roadtrip #attabadlake #baldiyaat #lakelovers #hiking #hunzavalley #travelphotographer 
#travelphotography #instatravel #mountain #mountainscape #wanderer #Wanderlust #agameoftones 
#trekking #adventure #artofvisuals #beautifuldestinations #beautifulpakistan #northernareaofpakistan 
#instadaily #dailykumrat #daily_Kumrat #kumratnews #kumrat_news #Takki_Banda #takki #kundbanda #hotels_in_Jehazbanda 
#map_of_kumrat #map_of_jehazbanda #jazzbanda #JandriValley  #Gamseer #Dankar #TakkiTop #JehazBanda 
#tourism_in_pakistan #tourist #touristme #toruists #travel_to_Naran #Travel_to_Kaghan
#Nathiagali #route_to_swat #tour_to_kalam #tour_to_malamjabba #tour_to_Mahodand

 گمنام کوہستانی کے قلم
 سے جس طرح آج لاہور میں داتا دربار یا بنیر میں پیر بابا مشہور ہے ہمارے ہاں جنڑیاں بابا بھی اسی طرح مشہور تھا۔ آج اگر چہ یہاں کوئی نہیں آتا لیکن ایک وقت تھا کہ یہاں دیر کوہستان کے کونے کونے سے لوگ آتے تھے اور نذر چھڑاکر دعائیں مانگتے تھے۔ نذر میں بھیڑ بکری سے لے کر مرغی اور مکئی کے دانے پیش کیئے جاتے تھے۔ مزار کے آس پاس رہنے والے باری باری یہ نذر وغیرہ لیا کرتے تھے بدلے میں وہ مزار کی صفائی وغیرہ کرتے تھے، کسی کو بیٹا چاہئے تو کوئی بیمار ہے غرض دن بھر یہاں میلہ سا لگا رہتا تھا۔ پتہ نہیں کب آیا تھا، کب مرا،کیسے مرا، تھا بھی یا ایسے ہی مشہور تھا لیکن تھا کوہستان دیر کا اکلوتا اور مشہور بابا ۔
آج دنیا آخون سالاک اور ان کے لشکر کو غازی اور دیر کوہستان میں ہونے لوٹ مار کو جہاد کا مقدس نام دیتی ہے لیکن مقامی تاریخ پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، نا تو یہ لوگ یہاں اسلام کی تبلیغ کے لئے آئے تھے اور نہ انہوں نے کوئی جہاد کیا۔ یہ لوگ آئے لوٹ مار کی، مقامی لوگوں کا قتل عام کیا جو بچ گئے ان کو کلمہ پڑھاکر واپس چلے گئے، نا تو انہوں نے اسلام کے بارے میں بتایا اور نہ پیچھے کسی بزرگ کو چھوڑا جو مقامی لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتا تھا۔ اس وجہ سے کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہاں اسلام کا مطلب بس اتنا تھا، اللہ ایک ہے، قران اللہ کی کتاب ہے، محمدﷺ اللہ کے رسول ہے اور جنڑیاں بابا اللہ کے ولی ہے۔ یہ بات عجیب سی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج سے پچیس تیس پہلے ہمارے لوگوں کو نماز روزے کے بارے میں اتنا خاص پتہ نہیں تھا یہ تو بعد میں تبلیغی آئے تو مقامی لوگوں کو نماز روزے اور دوسرے احکام کے بارے میں پتہ چلا، اس سے پہلے ہمارے لوگ بس مسلمان تھے ۔ جنڑیاں بابا کے بارے میں بزرگ کہتے ہیں کہ جب پشتون یہاں آئے تو ان کے ساتھ گجر بھائی بھی آئے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ 1804 میں دیر خاص پر خان ظفر خان کے حملے سے پہلے داروڑہ شاٹ کس سے اوپر کے علاقوں میں نا تو گجر تھے اور نا پشتون۔ 1804 میں جب دیر خاص پر پشتون قبضہ ہوا تو مقامی دارد کمزور پڑ گئے اور پشتون گجر اندر گھس گئے اس سے پہلے نا تو مقامی تاریخ میں اس بات کا ذکر ہے اور نہ کسی مورخ نے لکھا ہے کہ یہاں پشتون یا گجر بھی آباد تھے۔ جنڑیاں بابا اپنے وقت کا مشہور بابا تھا، روزانہ یہاں درجنوں لوگ آتے تھے اور منتیں مانگتے تھے۔ میں تین بار یہاں گیا ہوں، پہلی بار بچپن میں گیا تھا جب میں بہت چھوٹا تھا کچھ یاد نہیں سوائے اس کے کہ ہماری کالی مرغی ایک منجاور کے بغل میں تھی اور سامنے ایک مزار تھا۔ دوسری بار ابوں کے ایک ہندو دوست رام چند کاکا اور ماموں کے ساتھ، رام چند کاکا قدیم نواردات، سونے کے خزانوں اور شکار کا شوقین تھا اور میرے ابوں کو بھی ان سب کا شوق ہے ۔
تیسری بار اب اپنے دوستوں Abdul Basit, نواب خان اور Shahid Anwar کے ساتھ گیا۔ دوسری بار میں بڑا تھا سب کچھ یاد ہے، یہاں مزار کے عین وسط میں ایک چھوٹا سا جھولا جھول رہا تھا جس سائل کو بیٹے کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ اس جھولے کو تین بار دکھا دیتا تھا۔ مزار کے آس پاس درختوں کے نیچے بہت سارے بچے اور لوگ بیٹھے تھے، مریض وغیرہ مزار کے اوپر بنے پتھر جسم سے لگاتے تھے اور نمک کھاکر صحت یابی کے دعائیں مانگ رہے تھے۔ یہاں چونکہ لنگر وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں تھا تو لوگ سب کچھ خود کر رہے تھے، کوئی کھانا بنا رہا تھا تو کوئی چائے۔ مزار کے اوپر رنگین چادر بچھی ہوئی تھی اور لوبان کی خوشبوں ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ مزار کے زیارت کے بعد ہم لوگ کنال میں سلطان ماما کے گھر گئے، کھانا وغیرہ کھایا اور پھر واپس گھرآگئے۔ اس کے کافی عرصے بعد ایک دن سنا کچھ تبلیغی آئے تھے اور رات کو چوری چھپے مزار کو کھود کر چلے گئے۔ بعد میں پتہ چلا ان حضرات میں ہمارے کچھ رشتہ دار بزرگ بھی تھے جن کو سونے کے لالچ نے مزار کھودنے پر مجبور کیا۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ قدیم قبروں اور عمارات میں سونا اور سونے کے زیورات وغیرہ ہوتے ہیں اس لئے لوگ ان کو کھود کر دیکھتے ہیں، اس وجہ سے آج دیر کوہستان میں ایک بھی قدیم عمارت اور مزار موجود نہیں ہے۔ جویر بنڈ کینو لام میں قدیم وقتوں کے کچھ قبریں تھی وہ بھی سونے کے لالچ میں مٹا دیئے گئے، سنا تھا وہاں سے ایسے پتھر ملے تھے جن پرنقش و نگار بنے ہوئے تھے جنہیں بے کار سمجھ کر پھینک دیا گیا۔
اس کے علاوہ بیراداد کے قلعے سمیت جون داد کے قلعے اور رام شورکین میں موجود ہمارے شاندار ماضی کے سارے نشانات ایک ایک کرکے مٹا دیئے گئے۔ یہی حال جنڑیاں بابا کا بھی ہوا اس کے اندر سے بھی خوبانی کے پرانے تنے کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ نا سونا اور نہ بابا بس مزار تباہ ہوا۔ بعد میں بابا سے معلوم ہوا کہ ہم نے اسے اس لئے کھودا تاکہ لوگ اس گمراہی سے بچ جائے لیکن حقیقت یہی ہے بابا سمیت ان لوگوں نے اسے اس لئے کھودا تاکہ سونا ملے جس طرح دوسرے قدیم مقامات کھودے گئے۔ بزرگوں کے اس کارنامے کے بعد مزار کے آس پاس رہنے والوں نے قبر کو دوبارہ بند کیا اور اسے پھر سے بابا بنانا چاپا لیکن لوگوں نے سنا تھا کہ اندر سوائے خوبانی کے درخت کچھ نہیں ملا تو کون آتا۔ کچھ وقت بدلا کچھ خوبانی کے تنے والی بات مشہور ہوئی لوگوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا۔ آج یہ حال ہے کہ کوئی بھولے سے بھی اس طرف نہیں آتا، جہاں کبھی اتنا رش ہوا کرتا تھا کہ میلے کا گمان ہوتا تھا آج وہاں سناٹے کا راج ہے۔
یہ صرف ایک مزار نہیں تھا بلکہ قدیم داردیک فن تعمیر کا شاہکار تھا، مزار میں لگے لکڑیوں پر بہترین کندہ کاری کی گئی تھی جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا۔ ج یہ حال ہے کہ مزار کے اندر میلی سے چادر کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ نہ وہ رنگین چادریں اور نہ وہ نقش نگار والی لکڑی کے تختے جن کو مزار کے خوبصورتی کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ مزار کے نیچے ایک چھوٹی سے مسجد ہے، اس کی باہر والی بڑٰی ستون اور اور آس پاس قبروں کے سوا جن پر بترین نقش و نگار بنے ہوئے ہیں یہاں کوئی قابل ذکر چیز موجود نہیں ہے ۔ مزار کے قریب قربستان میرے خیال میں دیر کوہستان کا واحد قربستان ہے جس کے قبروں پر قدیم داردیک نقش و نگار یہاں تک قدیم آریا نشانی مقدس گھوڑے کے سر تک بنے ہوئے ہیں۔ میں دیر کوہستان میں بہت گھوما ہوں لیکن مجھے ایک ساتھ اتنے سارے قدیم قبریں نہیں ملی جتنی جنڑیاں بابا کے مزار کے قریب ہے۔ ماضی کا یہ مشہور مزار دیر کوہستان کے مشہور گاوں بریکوٹ کے علاقے جنڑیاں میں واقع ہے۔ بریکوٹ سے گھنٹہ دو گھنٹے کے پیدل مسافت پر واقع اس مزار کی اہمیت اگرچہ اب کچھ بھی نہیں ہے لیکن دیر کے قدیم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں اور خاص کر قدیم داردستان پر تحقیق کرنے والے محقیقن کے لئے یہاں اب بھی بہت کچھ ہے۔

Thursday 5 September 2019

PICNIC SPOTS AT KUMRATVALLEY

 وادی کمراٹ کے قابل دید مقامات
picnic spots at kumrat valley, #kumratvalley #kumrat #valley #how_to_reach_kumratvalley
#kurmatvalley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat_valley #hotelsInKumratvalley #hotels_in_kumrat #hotelInKumrat #howtoreachkumrat
#kumrat_vally_hotels #best_hotel_in_kumratvalley #facilities_in_kumaratvalley
#tourism_in_pakistan #tourism_in_kp #hotels #kumrat #BestSportKumrat #map_of_kumrat #map_of_kumratvalley
#KalamToKumat #Utrorvalley #BadgoyePass #BadgoyeTop #Dasht_e_Laila #Mahodand #mom_tuch_Hotel_kumrat #Hotel_grand_palace
#HowToReachKumrat #Local_Transport_to_Kumratvalley #Local #Transport #kumrat #KundBanda #kunrBanda 
#JehazbandaHotel #Hotels_in_Jehazbanda #RouteToJehazbanda #KumratWaterfall #Kumrat_Forest #tourism
#KumratValleykpk #kumrat #kpk #gilgitbaltistan #Pakistan #kkh #karakoramhighway #roadadventure 
#roadtrip #attabadlake #baldiyaat #lakelovers #hiking #hunzavalley #travelphotographer 
#travelphotography #instatravel #mountain #mountainscape #wanderer #Wanderlust #agameoftones 
#trekking #adventure #artofvisuals #beautifuldestinations #beautifulpakistan #northernareaofpakistan 
#instadaily #dailykumrat #daily_Kumrat #kumratnews #kumrat_news #Takki_Banda #takki #kundbanda #hotels_in_Jehazbanda 
#map_of_kumrat #map_of_jehazbanda #jazzbanda #JandriValley  #Gamseer #Dankar #TakkiTop #JehazBanda 
#tourism_in_pakistan #tourist #touristme #toruists #travel_to_Naran #Travel_to_Kaghan
#Nathiagali #route_to_swat #tour_to_kalam #tour_to_malamjabba #tour_to_Mahodand

گمنام کوہستانی کے قلم سے
 وادی کمراٹ سلسلہ کوہ ہندوکش کی دامن میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ خیبر پختونخوا کےعلاقےکوہستان دیر بالا میں واقع ہے۔ اس جادوئی کشش رکھنے والی وادی میں برف پوش پہاڑ، گھنے جنگلات، ابلتے پانی کے چشمے، سرسبز وسیع میدان، گرتے آبشار، گنگناتے جھرنیں اور لاتعداد اقسام اور رنگ کے پھول جابجا نظر آتے ہیں۔ ویسے تو پوری وادی دیکھنے کی قابل ہے لیکن کچھ مقامات ایسے ہیں جو بہت مشہور ہیں۔
🍂جامع مسجد دارالاسلام تِھل
Jamia Masjid Thall, #kumratvalley #kumrat #valley #how_to_reach_kumratvalley
#kurmatvalley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat_valley #hotelsInKumratvalley #hotels_in_kumrat #hotelInKumrat #howtoreachkumrat
#kumrat_vally_hotels #best_hotel_in_kumratvalley #facilities_in_kumaratvalley
#tourism_in_pakistan #tourism_in_kp #hotels #kumrat #BestSportKumrat #map_of_kumrat #map_of_kumratvalley
#KalamToKumat #Utrorvalley #BadgoyePass #BadgoyeTop #Dasht_e_Laila #Mahodand #mom_tuch_Hotel_kumrat #Hotel_grand_palace
#HowToReachKumrat #Local_Transport_to_Kumratvalley #Local #Transport #kumrat #KundBanda #kunrBanda 
#JehazbandaHotel #Hotels_in_Jehazbanda #RouteToJehazbanda #KumratWaterfall #Kumrat_Forest #tourism
#KumratValleykpk #kumrat #kpk #gilgitbaltistan #Pakistan #kkh #karakoramhighway #roadadventure 
#roadtrip #attabadlake #baldiyaat #lakelovers #hiking #hunzavalley #travelphotographer 
#travelphotography #instatravel #mountain #mountainscape #wanderer #Wanderlust #agameoftones 
#trekking #adventure #artofvisuals #beautifuldestinations #beautifulpakistan #northernareaofpakistan 
#instadaily #dailykumrat #daily_Kumrat #kumratnews #kumrat_news #Takki_Banda #takki #kundbanda #hotels_in_Jehazbanda 
#map_of_kumrat #map_of_jehazbanda #jazzbanda #JandriValley  #Gamseer #Dankar #TakkiTop #JehazBanda 
#tourism_in_pakistan #tourist #touristme #toruists #travel_to_Naran #Travel_to_Kaghan
#Nathiagali #route_to_swat #tour_to_kalam #tour_to_malamjabba #tour_to_Mahodand

بظاہر اس مسجد کا کمراٹ کے خوبصورتی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس مسجد کو دیر کوہستان کی سب سے قدیم اور مشہور مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے، یہ مسجد دیر کوہستان کے سب سے آخری گاوں تِھل میں واقع ہے۔ تِھل بازار سے آگے دریائے پنجگوڑہ کے عین کنارے واقع اس مسجد کے دو حصے ہیں، بالائی منزل جستی چادروں سے 1999ء میں تعمیر کی گئی ہے۔ جبکہ زیریں حصہ 1865ء میں تعمیر کیا گیا ہےـ 1953 میں اس مسجد میں ہونے والے آتشزدگی کی وجہ سے اس کا ایک حصہ متاثر ہوا۔ جس کو مقامی لوگوں نے دوبارہ تعمیر کیا۔ اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ سوائے چھت دیواروں کے باقی پوری مسجد دیار کی لکڑی سے بنی ہے، درختوں کے بڑے بڑے تنے ستونوں کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں، دیواروں اور ستونوں پر کلہاڑی اور دیدہ زیب رنگوں سے آرائش کی گئی ہے کہ آج کے مشینی دور کا انسان حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دریائے پنجگوڑہ کے کنارے واقع داردی فن تعمیر کے اس شاندار نمونے کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں ـ مسجد میں تصویر کھینچے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
🍂کوتگل آبشار
تِھل بازار سے نکل کر کمراٹ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک چڑھائی آتی ہے، ساتھ میں دو چار دکانیں ہیں، آگے جا کر ایف سی کی چیک پوسٹ آتی ہے، دراصل کمراٹ صرف اس جگہ کا نام ہے۔ پوری وادی کو کمراٹ کا نام باہر کے لوگوں نے دیا ہے۔ ایف سی چیک پوسٹ سے آگے والے علاقے کو سری مئی کہا جاتا ہے جہاں ہر سال کمراٹ فیسٹول منعقد ہوتا ہے۔ اس سے آگے روئی شئی کا میدان آتا ہے، جہاں اس ہموار میدان کا اختتام ہوتا ہے وہی سیدھے ہاتھ پر کوتگل ابشار بلندی سے گرتا ہے۔ یہ بالکل مین روڈ سے نظر آتا ہے، اس ابشار کو دیکھنے کے لئے آپ کو کم سے کم آدھا گھنٹہ پیدل ہموار راستے پر جانا پڑے گا، دور سے یہ ایک عام سا جھرنا نظر آتا ہے لیکن نزدیک پہنچنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک حسین اور سحر انگیز ابشار ہے۔
🍂 لال گاہ آبشار۔
لال گاہ ابشار کمراٹ ویلی کا سب سے مشہور ابشار ہے، اونچائی سے گرنے والا اس ابشار کا سرد برفیلا پانی اونچے برف پوش پہاڑوں پر موجود گلیشئیر سے پگھل کر آتا ہے، صبح کے وقت اس کی روانی دیکھنے لائق ہوتی ہے۔
🍂 کالا پانی
کالا چشمہ جسے کچھ لوگ کالا پانی بھی کہتے ہیں کمراٹ کا ایک مشہور چشمہ ہے۔ مقامی کوہستانی زبان ( گاوری داردی ) میں اسے کیشین دیرا اوس یعنی کالے پتھروں کا چشمہ کہتے ہیں۔ اس چشمے کے ارد گرد بڑے بڑے کالے پتھر ہیں جس کے وجہ سے پانی کالا نظر آتا ہے۔
🍂 دوجنگا
دوجنگا کمراٹ کا آخری مقام ہے جہاں تک گاڑی جاسکتی ہے۔ اس سے آگے روڈ ختم ہوجاتا ہے اور مزید آگے پیدل جانا پڑتا ہے۔ دوجنگا کا ہمارا علاقائی تاریخ میں بہت اہم کردار ہے، ہماری لوک کہانیوں کے مطابق اس دوجنگا سے آگے خزان کوٹ کا مقام ہمارے آباء واجداد کی آخری پناہ گاہ تھی، اسی دوجنگا کے قریب بتوٹ کے میدان میں مقامی لوگوں نے اپنے مذہب اور اپنی دھرتی کو بچانے کے لئے آخری فیصلہ کن جنگ لڑی تھی۔ اگر آپ نے خزان کوٹ دیکھنا ہے تو دوجنگا سے تقریباً پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہے۔ راستے میں ایک چھوٹا سا جنگلے والا رنگین پل آئے گا، اس پل کو جیسے ہی کراس کرو تو راستہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، سیدھے ہاتھ والا راستہ روشن بانال، جارکھور بانال اور کونڈل بانال سے ہوتے ہوئے سوات کوہستان کے علاقے شاہی باغ کی طرف نکلتا ہے۔ اور ناک کے سیدھ میں اگر جاو گے تو آگے خزان کوٹ کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اس سے آگے راستے میں تھوڑی سی اونچائی پر چڑھنے کے بعد چھاروٹ بانال کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔چھاروٹ بنال میں راستہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، سیدھا راستہ ایز گلو بانال، گورشی بانال شازور بانال اور پھر شازور جھیل تک جاتا ہے، پھر وہاں سے آگے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے۔ دوسرا راستہ کاشکیکن پاس سے ہوتے ہوئے چترال کے علاقوں کی طرف نکلتا ہے، کاشکین پاس ایک قدیم راستہ ہے جسے ہمارے لوگ چترال جانے کےلئے صدیوں سے استعمال کرتے ہیں۔

Tuesday 3 September 2019

BADGOYEE TOP LAMOTI DIR UPPER KPK

باڈگوئی ٹاپ لاموتی دیر بالا 
Badgoyee Top, #kumratvalley #how_to_reach_kumratvalley #kurmatvalley #kumrat #valley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat #valley #hotels_in_kumratvalley, hotels in kumratvalley, hotel in kumrat, how to reach kumrat,
best hotel in kumrat, best hotel in kumratvalley, facilities in kumaratvalley, 
tourism in pakistan, tourism in kp, kundol lake, mahodand lake, places to visit in kumrat valley, kumrat valley waterfall,kumrat valley map,
katora lake location,kumrat valley to katora lake distance, kumrat valley hotels
Jehazbanda, How to reach Jehazbanda, Hotels_in_Jehazbanda, Jehazbanda_Spots, Picnic Spot at Jehazbanda, Jehazbanda 
#lakes at kumratvalley, #katoora lake, Jamia Masjid Thall, Historical Jamia Masjid Thall, daily kumrat, kumrat news,
#badgoyeeTop, #kumratvalley #kumrat  #how_to_reach_kumratvalley
#kurmatvalley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat_valley #hotelsInKumratvalley #hotels_in_kumrat #hotelInKumrat #howtoreachkumrat
#kumrat_vally_hotels #best_hotel_in_kumratvalley #facilities_in_kumaratvalley
#tourism_in_pakistan #tourism_in_kp #hotels #kumrat #BestSportKumrat #map_of_kumrat #map_of_kumratvalley
#KalamToKumat #Utrorvalley #BadgoyePass #BadgoyeTop #Dasht_e_Laila #Mahodand #mom_tuch_Hotel_kumrat #Hotel_grand_palace
#HowToReachKumrat #Local_Transport_to_Kumratvalley #Local #Transport #kumrat #KundBanda #kunrBanda 
#JehazbandaHotel #Hotels_in_Jehazbanda #RouteToJehazbanda #KumratWaterfall #Kumrat_Forest #tourism
 تحریر: گمنام کوہستانی
باڈگوئی ٹاپ جسے اتروڑ پاس بھی کہتے ہیں، دیر کوہستان کو سوات کوہستان سے ملانے والا ایک قدیم راستہ ہے ۔ اس پاس کو دونوں طرف کے کوہستانی قبائل صدیوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں، اس پاس کے ذریعے تھل سے کالام پہنچنے مییں تقریباٰ تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں کے تعداد میں سیاح سوات سے ہوتے ہوئے اس راستے پہ کمراٹ آتے ہیں ، اس راستے پر سفر کرکے سیاح نہ صرف وادی کمراٹ کا سیر کرلیتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مدین ،بحرین،کالام، مہوڈنڈ اور اتروڑ کے نظارے بھی مفت میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر آپ ایک ہی ٹور میں کالام اور وادی کمراٹ دیکھنا چاہتے ہیں, تو آپ کو سوات موٹروے سے سیدھا مینگورہ آنا ہوگا، مینگورہ سے پھر آگے کالام کے طرف آنا ہوگا، کالام سے اتروڑ گاؤں تک جیپ کا ٹریک دریا کے ساتھ ساتھ ایک ہموار راستہ کی صورت چلتا ہے۔ جونہی اتروڑ گاؤں سے آگے سفر شروع ہوتا ہے تو لکڑی کا پل کراس کرتے ہی بائیں جانب راستہ باڈگوئی پاس کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ پاس کی چڑھائی شروع ہوتے ہی گھنا جنگل شروع ہو جاتا ہے ، جو جو آپ اونچائی کی طرف فاصلہ طے کرتے جاتے ہیں اس کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس جنگل میں بڑے بڑے تنوں والے قدیم ترین درخت دیکھے جا سکتے ہیں۔
#kumratvalley #kumrat  #how_to_reach_kumratvalley #kurmatvalley #jehazband #torismkp #kptourism #tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat #kumrat_valley #hotelsInKumratvalley #hotels_in_kumrat #hotelInKumrat #howtoreachkumrat #kumrat_vally_hotels #best_hotel_in_kumratvalley #facilities_in_kumaratvalley #tourism_in_pakistan #tourism_in_kp #hotels #kumrat #BestSportKumrat #map_of_kumrat #map_of_kumratvalley #KalamToKumat #Utrorvalley #BadgoyePass #BadgoyeTop #Dasht_e_Laila #Mahodand #mom_tuch_Hotel_kumrat #Hotel_grand_palace #HowToReachKumrat #Local_Transport_to_Kumratvalley #Local #Transport #kumrat #KundBanda #kunrBanda  #JehazbandaHotel #Hotels_in_Jehazbanda #RouteToJehazbanda #KumratWaterfall #Kumrat_Forest #tourism

ٹاپ کے قریب سے پیچھے مڑ کے دیکھیں تو اتروڑ اور گبرال گاؤں کی طرف سے چاروں طرف جہاں بھی نظر جاتی ہے گھنا جنگل ہی دکھائی دیتا ہے ۔ہر جگہ لہلہاتے میدانیں ،ہرطرف رنگ برنگ پھولوں سے بھرے پہاڑ اور پرسکون نظارے سیاحوں کو اپنے سحر میں مبتلا کردیتے ہیں۔ سرسبز میدانوں کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے قدرت نے کوئی سبز قالین تہہ در تہہ بچھا دیا ہو۔ راستے میں بہتے جھرنے اس روڈ کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کرتے ہیں۔ باڈگوئی پاس میں گلیشئر سڑک کے قریب ہوتے ہیں , اسلئے آپ جی بھر کے برف کھا سکتے ہیں. ہر سال چودہ اگست کو سوات کوہستان اور دیر کوہستان کے جوان یہاں جمع ہوکر جشن آزادی مناتے ہیں، نوجوان ستار کے دھنوں پر روائیتی رقص کرکے خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں ۔ باڈگوئی پاس کا راستہ مئی سے لے کر نومبر تک کھلا ہوتا ہے، راستہ فور بائی فور گاڑی کا ہے جو آپ کو کالام کے بازار میں کہیں سے بھی مل جائی گی ۔

Tuesday 16 April 2019

THE LOVE STORY ASSOCIATED WITH KATORA LAKE

گھان سر اور مقتول عاشق
Katora Lake

گمنام کوہستانی کے قلم سے
گھان سر یعنی کٹورہ جھیل سے ہمارے ہاں کئی لوک داستانیں منسوب ہیں، آج آپ کو کٹورہ جھیل سے منسوب ایک لوک داستان سناتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں ایک چرواہاں گھان سرے کنارے اپنے بھیڑوں کے ساتھ رہتا تھا، ایک دن وہ جھیل میں نہارہا تھا کہ کہ اس کا آزار بند ہاتھ سے چھوٹ گیا اور جھیل کے پانی میں غائب ہوا، جھیل سے پانی زمین دوز راستے کے ذریعے چرواہے کی محبوبہ کے گاوں میں ایک چشمے کے صورت میں بہتا تھا۔ ڈاکٹر بلال نے اپنی کتاب دیر کوہستان ایک تعارف کے صفحہ نمبر 102 پر اس کہانی کو لکھا ہے لیکن انہوں نے ازار بند کے جگہ گلو بند لکھا ہے اور میں نے ازار بند سنا ہے خیر ازار بند ہے یا گلو بند جو بھی ہے لیکن یہ چرواہے کو اس کی محبوبہ نے گل کاری کرکے تحفے میں دیا تھا۔ چرواہے نے جھیل میں ادھر ادھر بہت ہاتھ مارے لیکن ازار بند نہیں ملا۔ کچھ دنوں بعد گھان سر سے دور بہت دور گاوں میں چراواہے کی محبوبہ چشمے سے پانی بھر رہی تھی کہ اچانک وہی ازار بند اس کے گھڑے میں گرا۔ محبوبہ ازار بند کو دیکھ کرحیران و پریشان ہوئی کہ چشمے میں یہ ازار بند کہاں سے آگیا ، خیر وقت گذرتا رہا اور موسم سرما سر پر پہنچ گیا۔ چرواہے نے بھی کٹورہ جھیل کے کنارے سے بوریابستر سمیٹ کر گاوں کا رخ کیا، کچھ دنوں بعد محبوبہ کے گاوں پہنچا تو محبوبہ نے ازاد بند کے بارے میں پوچھا۔

 چرواہے نے اپنی سنائی محبوبہ نے اپنی سنائی اور آزار بند اس کے ہاتھ پر رکھا، چرواہا سمجھ گیا کہ جھیل سے پانی زمین دوز راستے سے آکر اس چشمے کو جنم دیتا ہے۔ چرواہا دوبارہ کٹورہ جھیل گیا اور بھیڑوں کے اون کے مدد سے اس زمین دوز منبع کو بند کیا جہاں سے پانی محبوبہ کے گاوں میں جاتا تھا، چشمہ سوکھ گیا تو محبوبہ کے گاوں میں کہرام مچ گیا، فصل تو چھوڑئے پینے کی پانی کی قلت پیدا ہوگئی۔ کچھ عرصے بعد چرواہے محبوبہ کے گاوں گیا اور لوگوں سے کہا کہ اگر آپ لوگ اپنے گاوں کے فلاں لڑکی سے میری شادی کردیں تو پالوار( قدیم داردیک رسم جس میں دلہن کے باپ کو مال و زر دیا جا تھا ) میں میں آپ کو پانی دے سکتا ہوں، آپ کا پانی کا مسلئہ میں حل کر سکتا ہوں ، کہتے ہیں کہ گاوں کے بزرگ مان گئے تو چرواہے نے ایک بار پھر گھان سر کا رخ کیا، جھیل مین چھلانگ لگا کر بند کو کھولا تو چشمے میں پانی آگیا۔ چرواہا گاوں آگیا تو محبوبہ کے گاوں والے چرواہے سے ڈر گئے اور اسے مستقبل کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے قتل کر ڈالا اور محبوبہ کی شادی کسی اور سے کرادی ۔

Thursday 21 March 2019

AN INTRODUCTION OF DIR KOHISTAN BOOK REVIEW BY ZUBAIR TORWALI

کتاب ۔ دیر کوہستان ایک تعارف
مصنف۔ ڈاکٹر حضرت بلال
Book on Dir Kohistan, #kumratvalley #how_to_reach_kumratvalley #kurmatvalley #kumrat #valley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat #valley #hotels_in_kumratvalley, hotels in kumratvalley, hotel in kumrat, how to reach kumrat,
best hotel in kumrat, best hotel in kumratvalley, facilities in kumaratvalley, 
tourism in pakistan, tourism in kp, kundol lake, mahodand lake, places to visit in kumrat valley, kumrat valley waterfall,kumrat valley map,
katora lake location,kumrat valley to katora lake distance, kumrat valley hotels
Jehazbanda, How to reach Jehazbanda, Hotels_in_Jehazbanda, Jehazbanda_Spots, Picnic Spot at Jehazbanda, Jehazbanda 
#lakes at kumratvalley, #katoora lake, Jamia Masjid Thall, Historical Jamia Masjid Thall, daily kumrat, kumrat news,
#badgoyeeTop
تحریر: زبیر توروالی
 ہندوکش، قراقرم، ہمالیہ اور پامیر کے پہاڑوں میں بسنے والوں کی ثقافتوں، زبانوں، تاریخ، سیاسات اور سماجیات پربہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس تحقیق میں مقامی لوگوں کا حصّہ تو بہت ہی کم رہا ہے۔ ان وادیوں میں قدیم قومیں رہتی ہیں جو تاریخی طور پر تین اہم سلطنتوں کے بیچ رہتے ائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان قوموں پر ان سلطنتوں کےسیاسی، سماجی و ثقافتی اثار نمایا ں رہے ہیں۔ ہند، وسطی اشیا خصوصاً فارس اور تبت /چائنہ جیسے سلطنتوں کے بیچ ان اقوام نے بہت تاریخی و سیاسی جبر بھی جھیلے ہیں۔ یہ اقوام تین تہیوں پر مشتمل نوابادیات کے زیرعتاب رہے ہیں۔ یہ خطہ جسے بعض محقیقن ہائی اشیاء یعنی بلند اشیاء سے بھی یاد کرتے ہیں کلونیل زمانے میں گریٹ گیم کا شکار بھی رہا ہے۔ ان اقوام پر نوابادیتی ادوار میں جو تحقیق کی گئی ہے وہ عموما ً کسی تیسرے ذریعوں کی محتاج رہی ہے۔ مطلب اگر کسی یورپی نے یہاں کی تاریخ پر یا لوک ادب پر تحقیق کی ہے تو اکثر و بیشتر بہ امر مجبوری ان لوگوں پر قابض لوگوں کی مدد لی گئی ہے جو کہ مغل دربار سے یا پھر افغانستان سے منسلک تھے۔ ذیادہ تر محقیقین نے یہاں پر تحقیق کے لیے اپنے معاونین کو دوسرے قوموں سے رکھا ہے جو کہ پشتون تھے ، ایرانی تھے یا پھر مغل سلطنت سے منسلک پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے تھے۔ ان وجوہ کی بنا پر ان اقوام کے بارے میں اپنی اپنی اراء دی ہیں جو بسااوقات تعصب اور کسی خاص سلطنتی نکتہ نظر پیش کرتی ہیں۔
ایسے میں یہ ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ یہاں کے مقامی لوگ اگے بڑھے اور اپنی تاریخ، سماجیات، لسانیات اور ثقافتوں پر خود لکھیں۔ یہاں بھی ان مقامی لوگوں کو بڑے چیلینجز کا سامنا رہتا ہے کہ وہ کئی تاریخی تحقیقی روایات کو علمی و تحقیقی بنیاد پر چیلینج نہیں کرسکتے۔ ان کی تحقیق میں وہی نوابادیاتی چھاپ صاف نظر اتی ہے اورجس شناختی بحران سے یہ اقوام صدیوں سے گزر رہی ہیں وہ بحران ایسی تحقیقات میں نمایاں ہوکر سامنے اجاتا ہے۔ تاہم ان مقامی محقیقین اور لکھاریوں کی ان کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہے کیوں کہ اگے جاکر ان کی تحقیق کو مزید نکھارا جاسکتا ہے۔ گلگت ہو، بلتستان ہو کہ چترال ، کوہستان ہو کہ سوات یا دیر ہر جگہ مقامی لوگوں میں اب یہ احساس پیدا ہورہا ہے اوروہ کسی سرپرستی یا باقاعدہ تحقیقی تربیت نہ ہونے کے باوجود کافی کچھ کر رہے ہیں۔ ایسے افراد میں ایک شخص مکرالہ لاموتی سے ڈاکٹر حضرت بلال بھی ہیں جو تدریس و طب کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ انہوں نے بغیر کسی سرپرستی کے پنجکوڑہ وادی جسے مقامی طور پر ”دیر کوہستان“ سے بھی یاد کیا جاتا ہے کا ایک ثقافتی، تاریخی اور سیّاحتی تعارف ایک مختصر کتاب ”دیر کوہستان ایک تعارف“ کے نام سے لکھ کر اس وادی اور یہاں کے لوگوں کے بارے میں مزید تحقیق کرنے کی ترغیب دی ہے۔
اس مختصر کتاب میں مصنف نے دیر کوہستان کی تاریخ پر کچھ تاریخی و روایتی حوالوں سے بات کی ہے۔ یہاں کے رسم و رواج اور تہواروں کی نشاندہی کی ہے اور اسی طرح یہاں کے مشہور مقامات اور غیر معروف قوموں کا تعارف کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش قابل ستائش ہے ۔ کوئی بھی کتاب حرف اخر نہیں ہوتی اور نہ ہی سارے معلومات ایک کتاب میں یکجا کرکے پیش کیے جاسکتے ہیں۔ کتاب میں کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن اس کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر بلال اس کتاب کا دوبارہ جائزہ لے کر اس میں مزید چیزیں شامل کر رہے ہیں اور اگلے ایڈیشن بھی چھاپنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کی ایک اہم خاصیت گاؤری کے لوگ ادب سے شاعری، کہاوتوں اور ضرب الامثال کو اردو میں پیش کیا گیا ہے۔ اگلی ایڈیشنز میں کتاب کے اس حصّے کو مقامی زبانوں میں بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کی تاریخ پر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے اور کچھ ایرانی و روسی ماخذوں کی مدد سے اس تحقیق کو مزید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ یہ مختصر کتاب ایک اچھی کاوش ہے اور اس کے لیے میں ڈاکٹر حضرت بلال کو سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کتاب اپنے ذرائع سے 2017ء میں چھاپی ہے اور قیمت کم رکھی ہے تاکہ مقامی لوگ اس سے استفادہ کرسکے۔

Tuesday 12 March 2019

DIR KOHISTAN ROAD IS BLOCKED DUE TO HEAVY LAND SLIDING

دیر کوہستان لینڈ سلائیڈنگ سے مرکزی شاہراہ مکمل بند
تفصیلات کے مطابق دیر کوہستان کے صدر مقام شرینگل کے قریب درم دالہ کے مقام پرہیوی سلائڈنگ کی وجہ سے دیر کمراٹ روڈ مکمل بند ہے جس کی وجہ سے دونوں جانب گاڑیوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہے۔ مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یاد رہے کہ دیر تا شرینگل نئے روڈ پر بھی جگہ جگہ ہیوی لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے مسافر وں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ضلع انتظامیہ ابھی تک لینڈ سلائڈنگ کو صاف کرنے سے قاصر ہے۔ راج میر ڈیلی کمراٹ درام دالہ دیر کوہستان


dailykumrat



Wednesday 27 February 2019

JIRGA AN OLD TRADITIONAL PARLIAMENT OF KOHISTANI AND OTHER TRIBES OF OTHER WORLDS

(یرک(جرگہ
Jirga, #kumratvalley #how_to_reach_kumratvalley #kurmatvalley #kumrat #valley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat #valley #hotels_in_kumratvalley, hotels in kumratvalley, hotel in kumrat, how to reach kumrat,
best hotel in kumrat, best hotel in kumratvalley, facilities in kumaratvalley, 
tourism in pakistan, tourism in kp, kundol lake, mahodand lake, places to visit in kumrat valley, kumrat valley waterfall,kumrat valley map,
katora lake location,kumrat valley to katora lake distance, kumrat valley hotels
Jehazbanda, How to reach Jehazbanda, Hotels_in_Jehazbanda, Jehazbanda_Spots, Picnic Spot at Jehazbanda, Jehazbanda 
#lakes at kumratvalley, #katoora lake, Jamia Masjid Thall, Historical Jamia Masjid Thall, daily kumrat, kumrat news,
#badgoyeeTop
گمنام کوہستانی کے قلم سے
 ہمارے بعض پشتون دوستوں نے آج کل یہ لاحاصل بحث شروع کر رکھی ہے کہ پشتون کلچر اگر کہیں اپنی صحیح شکل میں موجود ہے تو وہ کوہستان دیر اور سوات میں ہے۔ یعنی ان کے بقول داردیک جنہیں عرف عام میں کوہستانی بھی کہاجاتا ہے نے پشتون کلچر کو زندہ رکھا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ اگر عام پشتون ہوتے تو کوئی بات نہیں تھی لیکن یہ بحث کرنے والے پڑھے لکھے اور تاریخ سے شغف رکھنے والے دوست ہیں۔
دوستوں پہلی بات تو یہ ہے کہ نہ تو ہم پشتون ہیں اور نہ ہم نے پشتون کلچر کو زندہ رکھا ہوا ہے، ہم اور پشتونوں میں سوائے اس کے کہ ہم بھی آرین ہیں اور پشتون بھی آرین ہیں کے علاوہ باقی کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ ہم بالکل الگ الگ قومیں ہیں۔ دنیا نے ہمیں کوہستانی کا نام دیا ہے لیکن ہماری اصل پہچان داردیک ہے نہ کہ کوہستانی۔ لفظ کوہستان کا ہم سے بس اتنا تعلق ہے جتنا لاہور میں رہنے والے کسی راجپوت کا لفظ لاہورئیے سے ہے جو اسے لاہور میں رہنے کے وجہ سے دیا جاتا ہے نہ کہ یہ اس کی قومی شناخت ہے، ٹھیک اسی طرح ہندوکش کے برف پوش پہاڑوں میں رہنے کے وجہ سے ہمیں کوہستانی کہا جاتا ہے نہ کہ یہ ہمارے قوم کا نام ہے ۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کو اپنے اصل قبائلی نام سے پکارتے ہیں نہ کہ لفظ کوہستانی سے، یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا بلکہ مشرقی دردستان، نورستان، کنڑ وغیرہ میں رہنے والے داردیک قبائل کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ وہاں رہنے والا مشہور داردیک قبیلے پشائی کو شاڑی اور کوہستانی دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کے قبیلے کا نام پشائی ہے نہ کہ شاڑی ، دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارا کلچر، ہماری زبان ایک دوسرے سے الگ ہیں، پشتون دوست دلیل کے طور پر جرگہ اور ننواتے جیسے نام پیش کرتے ہیں تو مدعا یہ ہے کہ جرگہ نہ تو پشتو زبان کا لفظ ہے اور نہ فارسی زبان کا، یہ منگولین زبان کا لفظ ہے جس کی معنی دائیرہ کی ہے اور یہ صرف پشتون کلچر میں نہیں پایا جاتا بلکہ میری ناقص معلومات کے مطابق سینٹرل ایشیا کے تمام اقوام میں جرگہ کسی نہ کسی شکل میں رائج ہے۔ جرگہ سسٹم کو ہمارے ہاں اہم حیثیت حاصل ہے اور ہم اسے جرگہ کے ساتھ اس کے قدیم داردیک نام یرک سے بھی یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح ننواتے کو ہم اس کے داردیک نام "ٹاپ شی لنگوک" سے پکارتے ہیں۔ بدل، بگشوگ (معافی)، یار ولی (بھائی بندی)، تھر گشوگ (فاتحہ)، دوبیشم (میت کا چالیسواں)، تلین (برسی)، اور چچ داک (مہمان نوازی) کےلئے ہم داردیک زبان کے قدیم نام استعمال کرتے ہیں نہ کہ پشتو زبان کے، داردیک زبانوں میں ان کے قدیم نام اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ ہم نے اسے کسی اور سے ادھار نہیں لیا بلکہ یہ ہمارے کلچر کا زمانہ قدیم سے حصہ ہے، ڈاکٹر بلال صاحب نے اپنے کتاب "دیر کوہستان ایک تعارف" میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔۔۔
اس لئے معزز دوستوں آپ کا یہ دعوی کہ ہم نے پشتون کلچر کو زندہ رکھا ہوا ہے یا ہم پشتون کلچر پر کاربند ہیں بالکل غلط ہے، ہوسکتا ہے ثقافتی نفوذ کی وجہ سے کچھ چیزیں آپس میں مل گئی ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے پشتون کلچر کو اپنایا ہے اور اسی پر کاربند ہیں، بعض چیزوں کے علاوہ ہمارا کلچر پشتون کلچر سے بالکل الگ ہے مثال کے طور پر بنسو آیان، شاری آیان، خائے یوسف، سی داگ وغیرہ کا پشتون کلچر میں دور دور تک نام و نشان نہیں ہے تو پھر کیسے ہم اسے پشتون کلچر کا نام دے سکتے ہیں۔۔۔؟ گمنام کوہستانی
 (تصویر مشرقی دردستان کےعلاقے نورستان کی ہے )

Monday 4 February 2019

THE GUJAR NATION AND THEIR HISTORY

گوجر قوم اتے ژیب

ڈاکٹر ذاہد شاہ کی قلم سے
گوجر پاکستان کا قدیم قوم ہے۔لیکن سوات دیر کے گوجر اب تک اپنی زبان اور کلچر کے ساتھ قائم ہے۔گوجر کون ہے اور کب اس علاقے میں وارد ہوئے؟ اس حوالے سے اہل علم کا کافی اختلاف ہے۔مورخین اسے "یوچی سیتھن" سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وسطی ایشیا سے ائے تھے(مولوی عبدالمالک، شابان گوجر، ص61)،یہ لوگ اریا کے ساتھ 15سو اور 9سو قبل مسیح کے درمیان اکر دیر میں رہنے لگے(افاقی، جلوہ کشمیرص138).ششی کا خیال ہے کہ گوجر ہمالیہ کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔یہ چروہا قبلہ ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے موجود تھے، ان کا بنیاد گجرات ہے اس میں ایک شخص حکمران بنا تھا جس نے دیر سے کابل اور ملتان تک حکومت کی.(تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ) بعض مورخین کا کہنا ہے کہ گوجر کوشان ہے۔گوجر گئوچر سے نکلا ہے۔جس کا معنی گائے چرانے والے ہیں، بعض انہیں یونانی النسل قرار دیا ہے، کسی نے ترک(پرویز، کالام کوہستان ص307،309).بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ پانچویں صدی میں اے۔800عیسوی کے مسلمان گوجروں کو "جزر" کہا کرتے تھے جو گوجر کا معرب ہے اور گجر مخفف ہے گوجر کا۔بعد میں ھندوستان کے افغان حکمرانوں نے گوجراٹھ جو انکی راجدھانی تھی سے گجرات بنایا
(تاریخ حافظ رحمت خانی وحواشی، 331،323).
گوجری: کوہستان کے گاوری زبان کے طرح ماہر لسانیات کا اس زبان کے حوالے سے بھی اتفاق نہیں تاھم اس پر اتفاق ہے کہ گوجری قدیم زبان ہے اور ھندی زبانوں کی گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔گوجری ماضی میں شاندار زبان تھی۔لیکن میدانی علاقوں میں ترک ہوا ہے۔اب اس زبان کے امین دیر، سوات، چترال اور کشمیر کے گوجر ہے(اظہر،  لوک گیت، ص152).دیر کے گوجر پشتو بھی بولتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ پشتو زبان اور کلچر کے بھی اب گوجر، امین ہے۔ (تاریخ ملاکنڈ از ڈاکٹر زاھد شاہ)۔
گوجر دیر کوہستان میں 18/15فیصد ہے ان کے تین بڑے قبلے سیواڑا خیل، بانڈیا خیل اور دڑدنگ ہیں ۔(تاریخ ملاکنڈ، از ڈاکٹر زاھد شاہ) جھانگیر شھید جاراخیل، مولانا حضرت سید، پسوال، ملک عبدالغفار پسوال گلدی، ملک عبدالغفارجارا خیل، ملک مظفر جارا خیل،سبحان الدین جیسے شخصیات اسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔