IN PURSUIT OF THE SHEPHERDS PART-2 - Daily Kumrat Daily Kumrat

Latest

Monday 5 June 2017

IN PURSUIT OF THE SHEPHERDS PART-2

سے پیاس بجھاتے 2:00 بجے 12684 فٹ بلند چوٹی پر پہنچے. چوٹی کی نزدیکی ڈھلوانیں سرسبز گھاس سے ڈھکی ھوی تھیں جس پر جگہ جگہ موجود گائے کا گوبر نشاندھی کر رھا تھا کہ یہ جگہ ان کا پسندیدہ مقام ھے. یہاں سے دائیں طرف شندور کی جھیلیں اور بائیں طرف نشیب میں 11735 فٹ بلندی پر واقع شٹاِک ڈنڈ کا کچھ حصہ نظر آرھا تھا. کچھ وقت یہاں گزار کرشٹاِک ڈنڈ کو مکمل عکس بند کرنے کے لیے ھم لوگ نشیب میں تقریباً 80 درجے کے زاویے پر موجود مختصر پتھروں میں واکنگ سٹک اور پیر پھنساتے 650 فٹ نیچے موجود چٹان پر پہنچ گئے. جھیل کو عکس بند کر کے واپس اوپر آئے اور 3:30 بجے آگے موجود 12864 فٹ بلند دوسری چوٹی پر پہنچ گئے. اس مقام سے سوات بالا, کمراٹ, شرنگل اور لواری ٹاپ کے تمام بلند پہاڑ نظر آ رھے تھے.
کچھ دیر بعد واپس شندور بانڈہ اترنا شروع ھوے اور 5:09 بجے نیچے شندور بانڈہ پہنچ گئے. واپس آ کر معلوم ھوا کہ کسی نے ھمارا سامان کھول کر تلاشی لی ھے اور سامان سے بھنے ھوئے چنے اور کشمش, پاور بنک اورموبائل چارجر کی یو ایس بی وائرز کے ساتھ ساتھ میری چپل چوری کر کے لے گیا ھے. ( چنے اور کشمش کی چوری کا علم ھمیں دو دن بعد شڑ وادی میں موجود جھیل پر اتر کر ھوا ) چنے کشمش چوری ھونے کا صدمہ میرے لیے کافی الم ناک ثابت ھوا کیونکہ میں کھانا بہت کم کھاتا ھوں اور ٹریک کے دوران تھوڑے تھوڑے چنے کشمش کھا کر نمکول ملا پانی پی کر انرجی بحال کرتا ھوں.( چنے کشمش نا ھونے کی وجہ سے اگلے چھ دنوں کے ٹریک میں میری حالت برُی ھو گئی تھی) کچھ دیر تک انگریز نما چرواھا بھی ھمارے پاس ناکام لوٹ آیا. اب کل اس نے واپس بیاڑ چلے جانا تھا. چوری کا سن کر اظہارِافسوس کرتا رھا پھر نیچے بانڈہ میں موجود چرواھے کے پاس چلا گیا. رات کے کھانے پر چرواھے سے یو ایس بی وائرز کا پوچھا لیکن یہاں ان کا دستیاب ھونا ناممکن کام تھا. چوری کا علم ھونے پر اس نے بھی کافی افسوس کیا اور کہنے لگا کہ آج صاف موسم کی وجہ سے یہاں کافی لوگ آئے تھے ان میں سے کسی نے چوری کی ھو گی.
اس علاقے میں موجود کسی بھی چرواھے کو شندور ڈنڈ سے آگے پاس یا علاقوں کو علم نہیں تھا.رات کو ھمارے میزبان نے بتایا کہ جھیل سے کچھ اوپر سوات کے دو چرواھوں نے ٹینٹ لگایا ھوا ھے جن کے پاس سولر چارجنگ کا انتظام بھی ھے. ان سے پاس کی معلومات مل سکتی ھیں. رات کے کھانے میں حسبِ معمول مترَ اور روٹی تھی. اس مرتبہ مرغی کے پوٹے کا ٹنِ کھول کر آدھا رات کو کھایا اور آدھا صبح ناشتے کے لیے رکھ لیا. رات کو میں نے باہر نکل کر اوپر دیکھا تو احساس ھوا کہ میں تو کسی اور ہی دنیا میں آچکا ھوں. جیسے یہ مسجد کا دروازہ نہیں بلکہ کسی ٹائم مشین کا دروازہ تھا جو مجھے کسی دوسری دنیا میں پہنچا چکا ھے. اوپر لاتعداد روشن ستاروں سے بھرا صاف شفاف آسمان جیسے میرے بالکل نزدیک آچکا تھا. ایسا لگتا تھا جیسے ہاتھ بڑھا کر ان ستاروں کو چھوا جاسکتا ہے. بے اختیار زبان پر سبحان الله کا ورد جاری ھوگیا. وجد کے سے عالم میں مدھوش اپنے وجود سے عاری, نا جانے کتنی دیر آسمان پر نظریں جمائے پتھر پر بیٹھا رھا پھر سردی کی شدت نے ھوش ٹھکانے لگائے تو واپس مسجد میں جا کر سو گیا.
صبح ناشتے کے بعد میزبان سے اجازت چاھی اور شکریہ کے طور پر اسے ایک ھزار روپے دینے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے راشن لے سکے. بہت انکار کرتا رھا کہ آپ لوگ مہمان ھو, ھم مہمانوں سے پیسے نہیں لیتے. بدقت پیسے لینے پر راضی ھوا. میزبان کے رخصت ھونے کے بعد ھم لوگ بھی سامان اٹھا کر آہستہ آہستہ شندور ڈنڈ کی طرف روانہ ھو گئے. راستے میں دو چرواھے ملے جو بارہ بور کی بندوقیں اٹھائے اپنے مویشی ڈھونڈ رھے تھے. سلام دعا کرکے وہ اوپر بائیں جانب کے پہاڑوں پر چلے گئے اور ھم صبح 11:51 بجے 12211 فٹ بلندی پر واقع سواتی چرواھوں کے ٹینٹ کے پاس پہنچ گئے. درجہ حرارت 18.5 سینٹی گریڈ ھو چکا تھا. پتھر ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر مختصر دیواریں بنائی ھوی تھیں جن پر ترپال اور پلاسٹک کی شیٹ باندھ کر بارش سے محفوظ چھت بنا رکھی تھی. ساتھ ھی ایک مختصر کمرہ بنایا ھوا تھا جس میں غالباً بکری یا بھیڑ کے بچے رکھے جاتے تھے. زمین کی سیاہ رنگت والی نرم مٹی بتا رھی تھی کہ یہاں بکریوں, بھیڑوں اور گائیوں کا فضلہ اور پیشاب کثیر مقدار میں شامل ھے. جھیل کی جانب تھوڑی گہرائی میں پتھروں کی دیوار سے بنا صاف ستھرا مختصر احاطہ اس بات کی نشاندھی کر رھا تھا کہ یہ جگہ نماز کے لیے مخصوص ھے. خیمہ خالی پڑا تھا. چرواھے مویشیوں کی تلاش میں شٹاکِ ڈنڈ والے پہاڑوں کی چوٹیوں پر گئے ھوے تھے. خیمہ کے باھر ایک بھیڑ سو رھی تھی اور نزدیک ہی بھیڑ کا نومولود بچہ بیٹھا آرام کر رھا تھا. کچھ دن پہلے اس حاملہ بھیڑ نے بلندی سے گر کر ایک مردہ اور ایک زندہ بچے کو جنم دیا تھا.
بھوکا بھیڑ کا بچہ کئی مرتبہ اپنی بیمار ماں کا دودھ پینے کی ناکام کوشش کر رھا تھا. لیکن دودھ شائید خشک ھو چکا تھا. بعد میں پتا چلا کہ اس بچے کو دوسری بھیڑ کا دودھ پلایا جا رھا ھے. خیمے کے ساتھ والے مختصر کمرے کی چھت پر ایک چھوٹا سا سولر پینل رکھا ھوا تھا جس کی تاریں خیمے کے اندر رکھی بیٹری سے منسلک تھیں. بیٹری کے ساتھ منسلک ملٹی وائرز چارجر کے ساتھ اپنا فون چارج کے لیے لگا کر باھر بیٹھ کر انتظار کرنے لگے. جھیل کے سامنے والے پہاڑوں کے عقب سے شڑ پاس اور اوشیرئی درہ کی جانب سے گھنے بادل آنا شروع ھو گئے. خنکی کی شدت نے گرم جیکٹ پہننے پر مجبور کر دیا. خیمے کی پتھریلی دیواروں کی درزوں سے ایک موٹا سا چوھا باھر نکلا اور ھمیں دیکھ کر واپس چھپ گیا. مختصر کمرے کے سامنے پڑے چھوٹے بڑے پتھروں پر سے ایک بھورے رنگ کا نیولا پھدکتا ھوا نیچے جھیل کی طرف اتر رھا تھا, اس سے پہلے کہ کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرتا وہ پتھروں میں غائب ھو گیا. تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جھیل کی مخالف سمت والے پہاڑوں پر سے نوجوان سواتی چرواھا ان دو چرواھوں کے ساتھ اترتا نظر آیا جو ھمیں نیچے ملے تھے. سلام دعاء کے بعد دونوں چرواھے بیاڑ کی طرف اتر گئے. ھلکی ھلکی بوندا باندی نے خیمے کے اندر بیٹھنے پر مجبور کردیا. دائیں طرف زمین پر بستر اور کمبل بچھے تھے اور بائیں طرف کھانا پکانے اور برتن دھونے کا انتظام کر رکھا تھا. پتھروں کی درمیانی خلاؤں میں مویشیوں کی ادویات اور سرنجیں رکھی نظر آ رھی تھیں.بکری کے دودھ سے چائے بنا کر چرواھے نے پیشِ خدمت کی جسے ھم نے بڑی رغبت سے نوشِ جاں کیا.
بکری کے دودھ میں پکایا ھوا ساگ گرم کر کے باسی روٹی کے ساتھ چرواھے نے کھایا اور ھمیں بھی دعوتِ طعام دی لیکن اسے کھانا ھمارے بس کی بات نہیں تھی. ویسے بھی ناشتے کے بعد رات سے پہلے بھوک نہیں محسوس ھوتی تھی. ھمارے استفسار پر چرواھے نے پاس کے متعلق اور آگے سیدگئی جھیل کی طرف کے علاقے کی معلومات فراھم کی. لیکن ھمیں یہی مشورہ دیا کہ واپس بیاڑ اتر جاؤ کیونکہ یہ پہاڑ کافی تیکھے اور مشکل ھیں, انھیں عبور کرنا آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں ھے. کچھ ہی دیر میں بارش تھم گئی اور ھم سامان خیمے میں چھوڑ کر پاس کی طرف چلنا شروع ھو گئے. ھمارا ارادہ تھا کہ آج کی رات ادھر ھی گزاری جائے. وقت گزاری اور پہاڑوں کا جائزہ لینے کے لیے آگے جا رھے تھے. آگے تھوڑی بلندی کے بعد نسبتاً مسطح جگہ آ گئی تھی. سرسبز گھاس کے میدان کے درمیان مختلف فاصلوں پر بڑے بڑے پتھر پڑے تھے اور شفاف پرسکون پانی کے تالاب سے بنے ھوے تھے. مجھے یہ جگہ کیمپنگ کے لیے بہت پسند آئی لیکن یہاں رات گزارتے تو کھانا نہیں ملتا اور نہ ھی معلومات, اس لیے تھوڑی تصاویر لے کر واپس چرواھوں کے خیمے میں آ گئے. دور سے دیکھنے پر تو یہ پہاڑ ناقبلِ عبور لگ رھے تھے لیکن ھمارے سابقہ تجربات کے مطابق ھم انھیں باآسانی عبور کر سکتے ھیں. سارا دن چرواھے کے ساتھ گپ شپ لگا کر وقت گزارتے رھے شام کو چرواھے کا چھوٹا بھائی اپنی بھیڑ بکریوں, گائیوں اور کتے کے ساتھ واپس آگیا. اس کے بقول اوپر پاڑوں پرگزشتہ روز ھونے والی ژالہ باری کے نتیجے میں جمنے والی برف کے اوپر بھیڑیے کے پیروں کے نشانات بنے ھوے تھے. رات کے کھانے کے لیے چھوٹے بھائی نے پلاسٹک کی بالٹی میں سے گوندھا ھوا آٹا نکال کر روٹیاں پکائیں اور ساگ اور دیسی گھی گرم کر کے کھنے کے لیے سامنے رکھ دیا. میرے بس سے باھر تھا یہ سب کھانا, اس لیے مرغی کے پوٹے کا ٹنِ کھول کر گرم کرکے روٹی کھائی. حسبِ معمول رفیع بھائی نے دل کھول کر چرواھوں کے کھانوں پر ہاتھ صاف کیا
اور میں نے چند نوالوں پر ھی اکتفا کیا کیونکہ روٹی بہت زیادہ موٹی ھونے کے ساتھ ساتھ کھٹی بھی تھی. تھوڑے سے پوٹے صبح ناشتے کے لیے بچا کر باقی چرواھوں کو بھی کھلا دیے. اب ھمارے پاس صرف دو عدد ٹنِ بچے تھے جو ھم صرف اسی صورت میں استعمال کرتے جب کسی بانڈے سے کھانا نا ملتا. کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور گپ شپ کا بھی. یو ایس بی وائر ان دونوں کے پاس بھی نہیں تھی لیکن ایک کٹی ھوئی تار مل ھی گئی جو فون کے ساتھ منسلک ھو سکتی تھی, دوسرے سرِے کی دونوں تاریں چھیل کر ھم نے چارجنگ بنک کے یو ایس بی پوائنٹس پر ماچس کے تنکوں کے ساتھ پھنسا کر فون چارج کرنے کی کوشش کی جو خوش قسمتی سے کامیاب تجربہ رھا. پاس اور آگے راستے کی معلومات کے استفسار پر دونوں بھائی یہی کہتے رھے کہ آگے مت جاؤ, زیادہ تر بانڈے خالی ھو چکے ھیں. راستہ بھٹک گئے تو مر جاؤ گے, سردی بھی عروج پر ھے وغیرہ وغیرہ. آخر تنگ آ کر میں نے اپنے فون سام سنگ نوٹ3میں محفوظ کی ھوئی گزشتہ سال کے لالکو گاؤں سے براستہ شگو سر اور سید گئی جھیل سے ھوتے ھوے اوشیرئی درہ ٹریک کی تصاویر دکھائیں جب ھم پانچ دن تک برف باری میں پھنس کر زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا رہ کر اس علاقے سے باھر نکلے تھے. تصاویر دیکھ کر دونوں دنگ رہ گئے اور کہنے لگے کہ موجودہ ٹریک تو آپ لوگوں کے لیے بہت آسان کام ھے. جس طرح وزن اٹھا کر آپ لوگ چلتے ھو اس طرح چلنا ھمارے بس کا بھی کام نہیں, ھم لوگ تو خالی ھاتھ چلتے ھیں اور سارا سامان خچروں پر لادا ھوتا ھے. رات کو دونوں نے اپنے خیمے میں سونے کی دعوت دی لیکن انھیں تنگ کرنے کے بجائے ھم نے نماز والی صاف جگہ والے مختصر احاطے میں اپنا ٹینٹ لگا کر سونے کو ترجیح دی.
سونے کے لیے لیٹے تو احساس ھوا کہ اتنی تنگ جگہ پر کھڑی پتھروں کی دیواروں سے کوئی پتھر گرا تو سیدھا سر یا پیروں کو کچل دے گا لیکن نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ھے. رات کے وقت جھیل میں چٹانیں ٹوٹ کر گرنے کی آوازیں بھی آتی رھیں. جس کی وجہ غالباً یہی ھو سکتی ھے کہ پتھروں میں بہنے والا پانی رات کو سردی کی شدت سے جم کر پھیلتا ھے تو چٹخے ھوے پتھر ٹوٹ کر الگ ھو جاتے ھیں. عموماً پہاڑی لوگ یہی سمجھتے ھیں کہ یہ کام جنات کرتے ھیں. صبح ناشتے میں چند لقمے رات کی روٹی پوٹوں کے ساتھ کھا کر چائے پی اور 8:17 بجے اپنے میزبانوں کو الوداع کہہ کر پاس کی جانب چل پڑے. دھوپ اوپر پہاڑوں پر چمک رھی تھی اور درجہ حرارت 21.7 سینٹی گریڈ ھو چکا تھا. پتھروں پر چڑھ کر اوپر سرسبز میدان سے گزرتے ھوئے ٹوٹے پھوٹے بولڈرز پر چڑھنا شروع ھو گئے. دونوں طرف موجود پہاڑوں کا درمیانی فاصلہ کم ھوتا جا رھا تھا اور راستہ بڑے بڑے بولڈرز اور دشوار گزار چٹانوں پر مشتمل ھوچکا تھا. جنھیں 18 کلو وزن کے ساتھ پھلانگنا ایک مشکل کام تھا. چٹانیں پھلانگ کر آگے گئے تو چڑھائی پر موجود سخت برف پر مشتمل گلیشیئر پار کرنا پڑا جس کے آگے موجود چٹانوں پر دائیں جانب سے پانی کا چشمہ بہہ کر نیچے ایک نیلے تالاب کی شکل اختیار کر رھا تھا. چشمہ سے پانی پی کر پھر اوپر چڑھنا شروع کیا. اب راستہ کافی دشوار اور عمودی ھوتا جا رھا تھا , ریت اور بجری پر مشتمل چڑھائی پر بار بار قدم پھسل رھے تھے. راستے پر جگہ جگہ موجود سخت برف کے انبار پر پھسلتے دونوں چھڑیوں سے توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے اوپر چڑھتے گئے. دھوپ کی تیزی جلد کو جلا رھی تھی اور پسینے میں شرابور کر رھی تھی. کچھ ھی دیر میں گلا خشک ھو گیا اور پیاس تنگ کرنے لگی. تھوڑا اوپر گئے تو دائیں جانب اوپر سے ٹھنڈے برف پانی کا چشمہ بہہ رھا تھا جس کے پانی میں نمکول ملا کر خوب پانی پیا. یہاں موجود سیاہ چٹانوں کی ساخت بتا رھی تھی کہ ان میں فولاد کی کانیں موجود ھیں. چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر اپنے حجم کے برعکس انتہائی زیادہ وزنی محسوس ھو رھے تھے. پانی پی کر دوبارہ اوپر چڑھنا شروع کیا , قدم بہ قدم چڑھائی کا زاویہ دشوار ھوتا جا رھا تھا. دائیں ڈھلوان پر چڑھتے ھوے اب ھم دوبارہ نیچے پھسلواں برف پر سفر کر رھے تھے. پرانی برف پر موجود تازہ اولے ایک الگ ھی نظارہ پیش کر رھے تھے. جن پر جگہ جگہ جانوروں کے پیروں کے نشانات دکھائی دے رھے تھے. متعدد گلیشئرز عبور کر کے ھم نے بائیں جانب والے پہاڑ کی ڈھلوان پر چڑھنا شروع کیا. اب ھم ٹاپ کے کافی نزدیک پہنچ چکے تھے. ھر طرف ٹوٹی اور چٹخی ھوی چٹانیں بکھری پڑی تھیں. ایسا لگتا تھا جیسے وقت یہاں تھم سا گیا ھے جیسے صدیوں سے یہ جگہ ویران پڑی ھے. اب ھم جس ڈھلوان پر چڑھ رھے تھے اس کے اوپر چٹخی ھوئی ڈھیلی چٹانیں لٹک رھی تھیں جو کسی بھی وقت گر سکتی تھیں. چڑھائی کا زاویہ تقریباً 70 درجے اور کمر پر 18 کلو وزن ھونےکے باوجود یہ جگہ ھم نے بڑی سرعت سے پار کی اور 11:05 بجے 13230 فٹ بلند بے نام ٹاپ پر پہنچ گئے.
درجہ حرارت 27.2 سینٹی گریڈ ھو چکا تھا. ٹاپ کے دوسری طرف شڑ وادی کے نشیب میں ایک خوبصورت بے نام جھیل اپنا دلکش نظارہ دکھا رھی تھی. بائیں جانب بہت دور نشیبی وادی میں دو سفید خیمے لگے نظر آ رھے تھے, یہ راستہ بائیں جانب نیچے جندرئی کی طرف اتر رھا تھا اور دائیں جانب بتدریج وادی کے درمیان سےبلند ھوتا ھوا شڑ پاس کی طرف جا رھا تھا. کچھ دیر تصاویر اتارنے میں صرف کیا پھر نیچے اترنا شروع ھو گئے. ڈھلوانیں سرسبز گھاس سے بھری ھوئی تھیں جن پر سرخ اور نیلے جنگلی پھول اپنی بہار دکھلا رھے تھے. اترائی کا زاویہ کافی دشوار تھا, پیر پھسلنے کا نتیجہ جان لیوا ثابت ھو سکتا تھا. اترائی پر گرنے سے بچنے کے لیے ھم زِگ زیگ انداز میں اترنے لگے, اس طریقے میں وقت زیادہ صرف ھوتا ھے لیکن گرنے کا خطرہ بہت کم ھوتا ھے. کچھ دیر بعد بیاڑ کی طرف سے گہرے بادل آنے لگے اور سرد ھوا کے دوش پر شڑ پاس کی جانب روانہ ھونے لگے. جھیل پر اتر کر ھم نے سوچا کہ چنے کشمش کھا کر توانائی بحال کرتے ھیں لیکن دونوں رک سیک کی مکمل تلاشی لینے پر احساس ھوا کہ یہ تو چوری ھو چکے ھیں. اس وقت چور کے لیے دل سے بدعا نکلی کہ پہاڑ سے گر کر اس کی ٹانگ ٹوٹ جائے. اب ھمارے پاس تھوڑے سے چاکلیٹ ھی بچے تھے. ایک ایک چاکلیٹ کھا کر جھیل کے پانی میں نمکول ملا کر پیا اور جھیل کے بائیں کناروں کے ساتھ چلتے ھوے بولڈرز پر چڑھنا شروع ھو گئے. اگر ھم نیچے بائیں طرف وادی میں اترتے تو کافی اترائی میں جا کر آسان لیکن لمبے راستے سے دائیں جانب شڑ پاس عبور کر سکتے تھے لیکن وقت بچانے کے لیے ھم نے سامنے والے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا. کچھ ھی دیر میں بوندا باندی شروع ھو گئی جس کے دوران ھم پہاڑ پر گھوم کر دائیں جانب والی چڑھائی پر پہنچ گئے. اب ھم دشوار گزار بولڈرز سے اتر کر سرسبز ڈھلان پر چل رھے تھے. بوندا باندی نے اب تیز بارش کی شکل اختیار کر لی تھی جس سے بچنے کے لیے واٹر پروف جیکٹ اور ٹراؤزر پہننا پڑا. تھوڑا چلنے کے بعد گرج چمک کے ساتھ شروع ھونے والی ژالہ باری نے دن کے 1:22بجے 12728 فٹ بلند مقام پر ٹینٹ لگا کر پناہ لینے پر مجبور کر دیا.
درجہ حرارت 13سینٹی گریڈ تھا اور لمحہ با لمحہ گرتا جا رھا تھا. تقریباً ک ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد موسلا دھار بارش اور ژالہ باری برس کر رک گئی اور ھم سامان لپیٹ کر دوبارہ آگے چل پڑے. گہرے سیاہ بادل بہت تیزی سے شڑ پاس سے ھوتے ھوے اوشیرئی کی جانب جا رھے تھے. بجلی کی گونجدار کڑک ھمارے اوپر چمکدار لہروں کی صورت میں وقفے وقفے سے لہرا رھی تھی. تھوڑا چلنے کے بعد پھر تیز بارش نے ھمیں گھیر لیا اور دوبارہ ٹینٹ لگانے پر مجبور کر دیا. سردی کی شدت کافی زیادہ ھو چکی تھی. ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد بارش تھم گئی اور ھم سامان سمیٹ کر اوپر شڑ پاس کی طرف روانہ ھو گئے. تھوڑا چلنے کے بعد سرسبز ڈھلان ختم ھو گئ. اب دشوار گزار بولڈرز پر چڑھائی شروع ھو گئی تھی. نیچے بائیں طرف وادی کے دامن میں شڑ پاس سے آنے والا پانی نالے کی صورت میں بہہ رھا تھا. دشوار گزار بولڈرز پر مشتمل طویل راستہ چڑھ کر ھم لوگ 4:34 بجے 13300 فٹ بلند شڑ پاس پر پہنچ گئے. درجہ حرارت 17.3 ھو چکا تھا. سامنے شڑ پاس پر ایک درمیانے سائز کی جھیل 13318 فٹ بلندی پر واقع تھی جس کا پانی نیچے جندرئی جا رھا تھا. جھیل کے دائیں پہاڑوں کے نیچے شندور ڈنڈ کا علاقہ ھے اور سامنے والے پہاڑوں کے نیچے اوشیرئی درہ کا علاقہ ھے. یہ علاقہ ایک جنکشن پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ھے جہاں سے اوشیرئی اور داروڑہ کو ایک راستہ نکلتا ھے دوسرا راستہ سید گئی ڈنڈ سے ھوتا ھوا لالکو, سخرا یا جاروگو سے گزر کر مٹہ سوات جاتا ھے. تیسرا راستہ درال بر چمبر پاس سے گزر کر نیچے دائیں مڑ کر بحرین اور درال ڈنڈ کی طرف جاتا ھے . مزید نیچے درال کزُ چمبر اتر کر لوئے پنڑ غالے پاس عبور کر کے ازمس ڈنڈ سے ھوتے ھوئے اتروڑ جاسکتے ھیں یا ازمس ڈنڈ سے پہلے جھاز پاس عبور کر کے کٹورہ جھیل یا جھاز ڈنڈ سے ھوتے ھوے جندرئی اتر سکتے ھیں. پاس پر موجود جھیل کے بائیں کنارےکے ساتھ چلتے ھوئے ھم لوگ جھیل سے آگے گئے تو تھوڑی بلندی پر ایک دوسری جھیل موجود تھی جس کا پانی اوشیرئی درہ کی طرف بہہ رھا تھا اس جھیل کے دائیں طرف اوپر بولڈرز پر چڑھنا شروع ھو گئے. سواتی چرواھوں کے مطابق اس ٹاپ کے دوسری طرف چرواھوں کا خیمہ ھونا چاھیے تھا لیکن ھمیں نشیب میں صرف ویران پہاڑ نظر آرھے تھے. ناشتے میں کھائے ھوے چند لقمے اور دو چاکلیٹ کب کے ھضم ھو چکے تھے. تھکاوٹ اور بھوک سے برا حال تھا.شندور ڈنڈ سے پہلے ایک بے نام پاس چڑھ کر نیچےشڑ وادی میں اترنا پھر شڑ پاس چڑھنا. تقریباً سارا راستہ بولڈرز پر طے کرنے کی وجہ سے شدید تھکاوٹ ھو رھی تھی. اب تو یہی خواہش تھی کہ کھانا ملے جائے اور آرام کرنے کے لیے کوئی بانڈہ. لیکن دونوں چیزیں عنقا تھیں. کمر پر موجود وزن ایک ایک قدم اٹھانا دشوار بنا رھا تھا. تھکن سے چور حالت میں دشوار چٹانیں چڑھ کر 5:57 بجے 13430 فٹ بلند درال بر چمبر پاس پر پہنچ گئے.
درجہ حرارت 19.3 سینٹی گریڈ ھو گیا تھا. دور دور تک بلند چوٹیاں اپنا دلکش نظارہ دکھا رھیں تھیں, جن پر سیاہ گھٹائیں منڈلا رھی تھیں. دور دور تک پہاڑوں کی چوٹیوں پر غروب ھوتا سورج اپنی سرخ شعاعیں بکھیر کر طلسماتی سا منظر پیش کر رھا تھا. شفق کی سرخی مسحور کر رھی تھے. یہاں کچھ تصاویر عکس بند کرکے نیچے اترنا شروع ھوے. تھوڑا نیچے اترے تو دائیں جانب عمودی چٹانوں کے زیرِسایہ 12855 فٹ کی بلندی پر واقع ایک بے نام جھیل دکھائی دے رھی تھی. تھکاوٹ اور کمزوری کی شدت نے ھمیں مجبور کر دیا کہ ھم اس جھیل کو دور سے عکس بند کر کے نیچے اتر جائیں. اترائی کافی دشوار تھی اوپر سے وزن اور سارا دن بولڈرز پر خالی پیٹ سفر کرکے حالت تباہ ھو چکی تھی. تاریکی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رھی تھی. دشوار گزار اترائی پر وزنی سامان توازن قائم کرنا دشوار بنا رھا تھا. جوتے کا سخت چمڑہ پیروں کی انگلیوں پر رگڑ رگڑ کر چھالے بنا چکا تھا.نیم تاریکی میں پتھروں پر لگنے والی ٹھوکریں اذیت ناک ھو چکی تھیں. اترائی شیطان کی آنت کی طرح ختم ھونے کا نام نہیں لے رھی تھی. اندھیرا اتنا بڑھ چکا تھا کہ ھمیں ھیڈلائٹس کی روشنی میں اترنا پڑ رھا تھا. تاریکی میں اترتے اترتے پھسلواں پتھروں کے درمیان اچانک بایاں پیر مڑگیا اور ٹخنے میں ھلکی موچ آگئی. اذیت ناک حالت میں اترنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا. وادی کا دامن ابھی بھی بہت نیچے تھا جس کا احساس وادی کے درمیان بہنے والا نالہ تاریکی میں ایک سفید لکیر کی صورت میں دے رھا تھا. اللہ اللہ کر کے وادی کے دامن کے نزدیک پہنچ گئے. راستے میں 6:30 بجے 12100فٹ کی بلندی پر موجود ایک چھوٹا سا خالی کمرا ملا جس کی بمشکل پانچ فٹ اونچی چھت پر ٹینٹ لگانے کا سوچا لیکن جگہ اتنی مختصر تھی کہ ٹینٹ پورا نہیں آتا. اندر سے بھی کمرے کی حالت رھنے کے قابل نیں تھی. کمرے کے آس پاس کی زمین مویشیوں کے گوبر اور پیشاب کی کثرت کی وجہ سے سیاہ اور نرم محسوس ھو رھی تھی. صاف جگہ نہ ملنے کے باعث حالت خراب ھونے کے باوجود نیچے وادی کے دامن تک اتر گئے. آخر کار 7:07 بجے 11740 فٹ بلند درال بر چمبر وادی کے دامن میں پہنچ گئے. کلائی کی گھڑی شدید مشقت کے نتیجے میں جسم کے گرم ھونے کی وجہ سے 22.9 درجہ حرارت دکھا رھی تھی. نالے کے پاس ٹینٹ لگایا اور بچے ھوئے آخری ایک ایک چاکلیٹ کھا کر نمکول ملا پانی پی کر سونے کے لیے لیٹ گئے. تھوڑی ھی دیر میں پسینے سے شرابور کپڑے سرد ھو کر جسم کو ناقابلِ برداشت سردی کا احساس دلانے لگے. اٹھ کر خشک کپڑے تبدیل کر کے لیٹنے کے باوجود سردی کا احساس کم نہ ھوا کیونکہ خوراک کی کمی سے جسمانی درجہ حرارت کم ھو چکا تھا. پینٹ کے اوپر پارکا ٹراؤزر پہنا اور گرم پولیسٹر کی موٹی جیکٹ اور اونی ٹوپی پہن کر سردی کا احساس ختم ھوا.
چونکہ اندھیرے میں خیمہ نصب کیا تھا اس لیے اونچی نیچی زمین اور پتھروں کا اندازہ نا ھونے کے باعث ٹیڑھا میڑھا ھو کر لیٹنا پڑ رھا تھا خیر کروٹیں بدل بدل کر سوتے جاگتے رات گزاری. صبح اٹھ کر حوائجِ ضروریہ سے فارغ ھو کر دھوپ نکلنے کا انتظار کرنے لگے. تاکہ ھمارے سانسوں کی نمی سے گیلا ھو چکا ٹینٹ خشک کر سکیں. اسی دوران سواتی چرواھوں سے حاصل کردہ تار کی مدد سے بذریعہ پاور بنک اپنا فون چارج کرتے رھے. کھانے کے لیے ھمارے پاس صرف دو عدد ٹنِ بچے تھے جو ھم صرف اسی صورت میں استعمال کرتے جب دو یا زائد دنوں تک کھانے کو کچھ نہ ملتا. خالی پیٹ نمکول ملا پانی پی کر سامان سمیٹا اور صبح 10:01 بجے نیچے درال کزُ چمبر وادی کی طرف روانہ ھو گئے. دھوپ کی وجہ سے درجہ حرارت 21.9 سینٹی گریڈ ھو چکا تھا. اب ھم لوگ وادی کے دامن میں نسبتاً ھموار راستے پر نیچے اتر رھے تھے. نالہ ھمارے دائیں طرف بہہ رھا تھا. کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد بائیں جانب اوپر ڈھلان پر ایک خالی گھر نظر آرھا تھا. تھوڑا اور آگے جانے پر راستے کے درمیان بھی خالی بانڈہ دکھائی دیا. وسیع وادی اب سکڑتیجا رھی تھی. دونوں جانب کے پہاڑوں کا درمیانی فاصلہ بہت کم ھو گیا تھا۔