IN PURSUIT OF THE SHEPHERDS PART-1 - Daily Kumrat Daily Kumrat

Latest

Thursday 1 June 2017

IN PURSUIT OF THE SHEPHERDS PART-1

kumrat, #kumratvalley #kumrat #valley #how_to_reach_kumratvalley
#kurmatvalley #jehazband #torismkp #kptourism
#tourismworld #hotelsInKumrarvalley #htotels_in_kumratvalley #dailykumrat
#kumrat_valley #hotelsInKumratvalley #hotels_in_kumrat #hotelInKumrat #howtoreachkumrat
#kumrat_vally_hotels #best_hotel_in_kumratvalley #facilities_in_kumaratvalley
#tourism_in_pakistan #tourism_in_kp #hotels #kumrat #BestSportKumrat #map_of_kumrat #map_of_kumratvalley
#KalamToKumat #Utrorvalley #BadgoyePass #BadgoyeTop #Dasht_e_Laila #Mahodand #mom_tuch_Hotel_kumrat #Hotel_grand_palace
#HowToReachKumrat #Local_Transport_to_Kumratvalley #Local #Transport #kumrat #KundBanda #kunrBanda 
#JehazbandaHotel #Hotels_in_Jehazbanda #RouteToJehazbanda #KumratWaterfall #Kumrat_Forest #tourism
#KumratValleykpk #kumrat #kpk #gilgitbaltistan #Pakistan #kkh #karakoramhighway #roadadventure 
#roadtrip #attabadlake #baldiyaat #lakelovers #hiking #hunzavalley #travelphotographer 
#travelphotography #instatravel #mountain #mountainscape #wanderer #Wanderlust #agameoftones 
#trekking #adventure #artofvisuals #beautifuldestinations #beautifulpakistan #northernareaofpakistan 
#instadaily #dailykumrat #daily_Kumrat #kumratnews #kumrat_news #Takki_Banda #takki #kundbanda #hotels_in_Jehazbanda 
#map_of_kumrat #map_of_jehazbanda #jazzbanda #JandriValley  #Gamseer #Dankar #TakkiTop #JehazBanda 
#tourism_in_pakistan #tourist #touristme #toruists #travel_to_Naran #Travel_to_Kaghan
#Nathiagali #route_to_swat #tour_to_kalam #tour_to_malamjabba #tour_to_Mahodand
#mootles #toruismkp #kptourism #tourismMe
( چرواہوں کی تعاقب میں :تحریر: افتخار علوی علوی (حصہ اول

 اس سال 2016 میں میرا اور رفیع خان کا درکوت پاس, کرومبر جھیل اور واخان کوریڈور کی ٹریکنگ کا پروگرام فائنل ھو چکا تھا. ہم نے ٹریک کی تمام ضروری معلومات اکٹھی کرکے ٹریک کی تیاریاں شروع کر دی تھیں لیکن ایک دن رفیع خان ھمارے موجودہ ٹریک کی تمام تفصیلات لے کر آئے جس میں ٹریک کے روٹ کے گوگل ارتھ کے سکرین شاٹ تھے جن میں بیاڑ سے شندور بانڈہ , شڑ پاس, درال بر چمبر پاس, درال ُکز چمبر, لوئے پنڑ غالے پاس, اور جھاز پاس اور جھاز بانڈہ سے ھوتے ھوئے جندرئی ,لاموتئی,دیر کوھستان تک کا روٹ واضح تھا اور اس روٹ میں کافی تعداد میں جھیلوں کو بھی پنِ پوائنٹ کیا گیا تھا. یہ بتانا بھی ضروری ھے کہ ٹریکنگ کے دوران جب ان جگھوں سے گزرے تو ھمیں جہاں جہاں چرواھے ملے , ان سے ھی ھمیں ان جگھوں اور جھیلوں کے نام معلوم ھوے, ٹریک سٹارٹ کرنے سے پہلے ھمیں ان وادیوں اور جھیلوں کے نام معلوم نہیں تھے. رفیع صاحب نے مجھے درکوت پاس , کرومبر جھیل, واخان کوریڈور کے ٹریک کو ترک کر کے مذکورہ ٹریک کرنے پر راضی کر ھی لیا, چونکہ میں زیادہ تر سوات کی وادیوں اور درّوں کے ٹریکس کا تجربہ رکھتا ھوں اس لیے وادی سوات کو جغرافیائی لحاظ سے کافی حد تک سمجھتا ھوں لیکن ضلع دیر کے جغرافیہ , پہاڑوں, اور وادیوں کے بارے میں میری معلومات زیادہ نہیں ھیں جبکہ رفیع صاحب دیر کے جغرافیہ, پہاڑوں اور وادیوں کے بارے میں کافی علم رکھتے ھیں اور کافی ٹریکس بھی کر چکے ھیں اس لیے ٹریک کے روٹ کی سرسری سی سمجھ آنے کے باوجود میں نے بھی اسی ٹریک پر رفیع صاحب کے ساتھ جانے پر رضامندی ظاھر کر دی کیونکہ یقینی طور پر یہ اپنی نوعیت کا ایک منفردٹریک تھا. مستنصر حسین تارڑ صاحب کی طرح کسی انجان وادی میں جا کر سب پہلا پاکستانی ٹریکر بننے کی تگ و دو میں لگے ھوے فیس بک پر موجود بہت سے ٹریکرز کی طرح ریکارڈ بنانا یا شہرت کا حصول کبھی بھی میرا مقصد نہیں رھا. میں تو صرف اپنی سیمابی اور مہم جو طبعیت کی تسکین کے لیے ٹریکس کرتا ھوں ۔
گزشتہ دو دن پہلے کی گئی ڈبارے ڈنڈ مہم کے بعد ھم لوگ شام کے 4:00 بجے کھانے کے 9 عدد ٹنِ , ایک کلو بھنے ھوئے چنے, کشمش, چاکلیٹ, نمکول کے پیکٹ, خشک دودھ اور چائے کاسامان, برتن, گیس سلنڈر, آٹے کے نعم البدل کے طور پر میکرونی کے متعدد پیکٹ اور ٹریکنگ کا دیگر ضروری سامان لے کر دیر سے پاتراک کے لیے روانہ ھوئے.شرنگل کے بعد راستے میں گاڑی پنکچر ھوئی تو ھم لوگ بھی کچھ تصاویر اتارنے میں مشغول ھو گئے. پورے راستے میں گردونواح کے پہاڑ سبزے اور درختوں سے ڈھکے ھوے نظر آرھے تھے. سٹپنی تبدیل ھوئی تو دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر پاتراک کی طرف گامزن ھو گئے. نمازِ مغرب کے وقت پاتراک اترے اور اپنے متوقع میزبان ٹھیکیدار صفی اللہ سے فون پر رابطہ کیا تو پتا چلا کہ وہ کام کے سلسلے میں دیر شہر میں موجود ھیں لیکن ان کی ھدایت پر ان کا بھتیجا ھم سے رابطہ کر لے گا. نماز کے وقت گرج چمک کے ساتھ بادلوں نے پاتراک کی وادی کو اپنے گھیرے میں لے لیا. دریں اثناء ھمارا میزبان بھی آگیا اور ھم لوگ اپنا سامان اٹھا کر لبِ سڑک واقع مسجد کی بائیں جانب موجود پہاڑی پر چڑھنا شروع ھو گئے. تھوڑی چڑھائی کے بعد تیز بارش شروع ھو گئی اور کچے راستے پر پانی کی نہر سی بہنے لگی, بارش میں بھیگتے پانی میں شڑاپ شڑاپ جوتے بھگوتے اپنے آپ کو کوستے اوپر جاتے رھے کہ نیچےمسجد میں تھوڑا انتظار ھی کر لیتے تو کیا حرج تھا۔
خیر کوئی 15 ,20 منٹ تک بارش میں چلنے کے بعد اپنے میزبان کے گھر پہنچے اور مہمان خانہ میں موجود گھر کے دیگر حضرات سے سلام دعا کے بعد بھیگے ھوے کپڑے بدل کر اور گیلا رک سیک اور سامان کھول کر خشک کرنے کے لیے پھیلا دینے کے بعد آرام سے بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگے اور شندور ڈنڈ کی معلومات لینے لگے لیکن ان حضرات کو پتا ھی نہیں تھا کہ یہ جھیل ھے کدھر. کچھ دیر بعد کھانا لگا دیا گیا,گھر کا پکا فرائی چکن, مصالہ دار چاول, ماش کی دال, دہی, سلاد , روٹی, سامنے آئی تو اتنے دنوں سے بازار کے بد ذائقہ کھانوں سے تنگ آئے ھم لوگ تو وجد کے عالم میں آگئے. سیر ھو کر کھانے کے بعد سیب اور آم اور ان کے بعد چائے مہیا کر دی گئی. رات آرامدہ بستر اور کمبل میں گزار کر صبح ناشتے میں پراٹھہ اور چائے کی دعوت اڑا کر ٹریکنگ کے سامان کا وزن کیا تو پتا چلا کہ بنیادی سامان کا وزن ھی 15 کلو ھے باقی کھانے کا سامان ملا کر وزن 22 کلو فی بندہ بن چکا تھا. وزن کم کرنے کے لیے ھم نے میکرونی کے سارے پیکٹ اور 4 عدد ٹنِ میزبان کے حوالے کر دئیے کہ یہ آپ لوگ استعمال کر لیں اور اپنے پاس میکرونی کے صرف دو عدد پیکٹ رکھ لیے.
اب سامان کا وزن 18 کلو فی بندہ ھو چکا تھا. گھر سے باہر نکل کر دیکھا تو دور سامنے والے پہاڑوں کی چوٹیاں تازہ برف کی چادر اوڑھے ایسی نئی نویلی دلکش دلہن کی طرح نکھری کھڑی تھیں جس کے چہرے سے نظر ہٹانا مشکل ھوتا ھے. رات بھر ھونے والی بارش کے بعد ھوا کی تازگی اور خنکی جسم میں راحت اور سکون کی لہریں دوڑا رھی تھی. شہر کی آلودہ ھوا سے تنگ پھیپھڑے جیسے ایک ھی سانس میں اس تازگی کو جذب کرنے کی تگ ودو میں لگ گئے. میزبانوں کو الوداع کہہ کر نیچے پاتراک کے بازار کی طرف جانے لگے لیکن وہ زبردستی اپنی کار میں ھمیں نیچے بازار لے گئے. ان علاقوں میں وارد اور ٹیلی نار کا ٹیلی کام سسٹم چلتا ھے اس لیے ھم نے بازار سے ٹیلی نار سمِ لینے کی ناکام کوشش کی کیونکہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی وجہ سے بائیو میٹرک تصدیق نہیں ھو سکی لیکن اس کے متبادل وارد کی سمِ مل گئی جو آگے جا کر بیکار ثابت ھوئی. پاتراک کے بازار سے بیاڑ جانے والی گاڑی میں سوار ھوئے . 10:33 بجے بیاڑ پہنچ گئے.سطح سمندر سے 4994 فٹ بلند اس مقام پر درجہ حرارت 31.6 سینٹی گریڈ ھو چکا تھا. ھمارا سامان اور حلیہ دیکھ کر مقامی لوگ حیرت سے دیکھ رھے تھے. نزدیک سے گزرنے والا ھر شخص سلام دعا کر کے گزر رھا تھا جو ان لوگوں کے مہمان نواز ھونے کی گواھی دے رھا تھا. بازار میں موجود ایک دکان سے معلومات لینے کی کوشش کی تو علم ھوا کہ شندور جھیل یہاں سے مقامی لوگوں کے وقتِ مسافت کے مطابق 2:30 گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ھے لیکن ھم لوگ 18 کلو وزن کے ساتھ اتنے کم وقت میں کبھی نہیں پہنچ سکتے.ھمیں کم از کم تین گنا یا چار گنا وقت درکار تھا. بازار سے دائیں جانب تھوڑا نشیب میں اتر کر تھل کی جانب سے آنے والا پنجکورہ دریا ایک لکڑی سے بنے ھوئے پل کے ذریعے عبور کیا جس کے ساتھ ھی کنکریٹ سے بنے ھوئے ستون کھڑے تھے جس پر عنقریب اھلِ علاقہ کے لیے پکا پل تعمیر ھونے والا تھا تا کہ اوپر گاؤں تک باآسانی جیپ جا سکے. پاتراک سے بیاڑ تک تمام پہاڑ سیڑئی کے چھوٹے چھوٹے خودرو درختوں سے بھرے ھوئے ھیں , انتہائی سخت لکڑی کے بنے ان درختوں کو بالغ و بلند ھونے کے لیے کئی سو سال کا عرصہ درکار ھوتا ھے. بہت سے مقام دیودار, چیڑ اور پڑتل کے درختوں سے بھرپور اپنی بہار دکھلا رھے تھے. بیاڑ کا علاقہ کوہستانی قوم کی ملکیت ھے لیکن بیاڑ سے شندور جھیل تک زیادہ تر علاقے پر گوجر قوم نے قبضہ کیا ھوا ھے. بہت عرصہ پہلے یہاں ایک گوجر اپنے مویشی چرانے آتا تھا اور بدلے میں کوہستانی قوم کو لگان دیتا تھا کچھ عرصے بعد یہاں گھر بنا کر رھنے لگا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اولاد بھی جوان ھو گئی اور اس نے غیر قانونی طور پر زمینیں دوسرے گوجروں کو بیچنا شروع کر دیں .
کوھستانیوں کے علم میں یہ بات آئی تو بات لڑائی جھگڑوں سے بڑھ کر قتل و غارت تک پہنچ گئی دونوں طرف سے کافی لوگ قتل ھوئے. عموماً کوھستانی لوگ اپنے مویشی پہاڑوں پر چھوڑ کر واپس چلے جاتے ھیں اور سردی کے آغاز پر اوپر آ کر مویشی ڈھونڈتے ھیں . گوجر لوگ کوھستانیوں کے مویشی پکڑ کر سوات کے علاقے میں بیچ دیتے اور ملنے والی رقم سے اسلحہ خرید کر کوہستانیوں پر ھی گولیاں برساتے. طویل عرصے تک کشت و خون کے بعد اب علاقے میں قتل تو نہیں ھو رھے کیونکہ تنازعہ اب پولیس اور عدالت کی نگرانی میں حل کرنے کی کوشش کی جا رھی ھے لیکن دونوں قوموں میں کشیدگی اور نفرت ابھی بھی عروج پر ھے. سیاحوں کے لیے یہاں کوئی خطرہ نہیں ھے.ھمارے لیے تو دونوں قومیں مہمان نواز ثابت ھوئیں. پل کے ذریعے دریا عبور کیا تو جیپ روڈ شروع ھوگیا جس پر خچروں اور دیگر مویشیوں کے چلنے کے نشانات موجود تھے. ھم چاھتے تو بیاڑ سے معمولی معاوضے کے عوض خچر پر سامان لاد کر جا سکتے تھے لیکن ھمارا مقصد اپنی مدد آپ کے تحت سولو ٹریک کرنا ھوتا ھے. دائیں اور بائیں طرف موجود پہاڑوں کے درمیان تنگ گھاٹی میں اوپر شندور جھیل سے بہنے والا نالہ گرج دار آواز میں گر رھا تھا. ھمارا راستہ بائیں جانب والے پہاڑ کی ڈھلان پر اوپر جا رھا تھا. دائیں گھاٹی میں موجود جنگل میں وقفے وقفے سے مشینی آرے کی آواز گونج رھی تھی. بیاڑ سے اوپر شندور جھیل تک کا راستہ اب ھم نے پہاڑی ڈھلان پر چلتے ھوے طے کرنا تھا. راستے کے دونوں طرف چکر دار ڈھلوانوں پر مکئ کے کھیت اور گھر نظر آ رھے تھے. اوپر جاتے ھوئے رستے کے بائیں طرف ایک لکڑی کا ڈنڈا پڑا ھوا نظر آیا جو میں نے تائیدِ غیبی سمجھ کر اپنی کھوئی ھوئی واکنگ سٹک کے متبادل نعمت سمجھ کر اٹھا لیا ( یہ ڈنڈا اگلے 9 دنوں تک 4 درّے اور لاتعداد بولڈرز عبور کرنے میں بہت کام آیا ) سورج بلند ھونے کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت بھی بڑھتا جا رھا تھا اور پیاس کی شدت بھی لیکن کافی فاصلہ طے کرنے کے باوجود کوئی چشمہ نظر نہیں آیا. وزن کی زیادتی تھکاوٹ کا آحساس اجاگر کر رہی تھی.
راستے میں موجود کسی گھر کے باھر کوئ مرد نظر نہیں آیا جس سے پانی کا مطالبہ کرتے. آخر کار کسی گھر سے ایک بچہ نکلا جو شاپر میں مرغی لے کر اوپر کی طرف جارھا تھا جس سے پانی کے مطالبہ کرنے پر اس نے بتایا کہ تھوڑے فاصلے پر مسجد موجود ھے جہاں سے چشمہ کا پانی مل جائے گا. دن کے 1:11 بجے ھم لوگ 6013 فٹ بلندی پر موجود مسجد پر پہنچے اور پیٹ بھر کر نمکول ملا سرد پانی پی کر پیاس بجھائی اور پسینہ خشک کر کے اوپر چل پڑے تھوڑا اوپر گئے تو بائیں جانب کسی موبائل فون کمپنی کا ٹاور اور سولر پینل لگے نظر آئے. اس مقام سے کچھ آگے پہاڑیوں پر موجود جیپ روڈ ختم ھو چکا تھا اور خچروں کے چلنے والا راستہ گھنےجنگل کے درمیان سےگزر رھا تھا . تھوڑی دیر میں بادلوں نےپہاڑوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور موسم بے حد خوشگوار محسوس ھونے لگا. طویل وقفوں کے دوران اوپر سے آنے والےکچھ لوگ کبھی اپنے خچروں پر لکڑیاں لادے اور کبھی اپنے بال بچوں کے ساتھ نیچے جا رھے تھے. کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملا جو سلام دعا اور اپنا مہمان بنا نے کی دعوت نہ دے رھا ھو. راستے میں ملنے والا ایک لڑکا کچھ اوپر تک ھمارے ساتھ ساتھ گپ شپ لگاتا چلتا رھا پھر اپنی منزلِ مقصود پر جدا ھو گیا. راستہ اب کافی تنگ اور درختوں سے گھرے ھوے مقام سے گزر رھا تھا. تھوڑا آگے راستے پر پانی کا چشمہ بہہ رھا تھا جہاں پتھروں میں پلاسٹک کی کاٹی ھوئی بوتل پھنسا کر چوبیس گھنٹےبہنے والا نلکہ بنایا ھوا تھا. اس مقام سے بھی خوب پانی پیا اور آگے چل پڑے. تھوڑی دیر میں بوندا باندی شروع ھو گئی اور ھم لوگ گھنے درختوں میں بیٹھ کر بارش رکنے کا انتظار کرنے کے دوران چنے کشمش کی دعوت اڑانے لگے. کافی انتظار کے باوجود بارش نہیں تھمی تو پارکا جیکٹ پہن کر چلنا شروع کر دیا. بیاڑ سے اوپر شندور جھیل تک سارا راستہ کسی وادی میں سے نہیں گزرتا. سارا راستہ پہاڑی ڈھلوانوں پر بنایا گیا ھے جو اکثر مقامات پر کافی عمودی چڑھائی اختیار کر لیتا ھے جس کے دائیں جانب نشیب میں جھیل سے آنے والا پانی بہتا ھے. بارش کا زور بڑھتا ھی جا رھا تھا اور گیلی چکنی مٹی گہری کیچڑ کی شکل اختیار کر چکی تھی جس میں پیر دھنسے جا رھے تھے اورگیلے چکنے پتھر چلنا دشوار بنا رھے تھے. تھوڑا اوپر گئے تو بائیں جانب درختوں میں گھرے ھوے تین یا چار گھر نظر آرھے تھے. ٹینٹ لگانے کے قابل کوئی مناسب مقام نظر نہیں آ رھا تھا.
گھروں سے کچھ پہلے ایک آدمی ملا جو سلام دعا کے بعد ھمیں گھروں سے پہلے واقع مسجد میں لے گیا. پتھروں کی دیواروں پرلکڑی کے بالے رکھ کر گھاس پھوس بچھائی گئی تھی جس میں سے پانی ٹپک ٹپک کر کچے فرش پر گر رھا تھا جس پر بچھی گھاس گیلی ھو چکی تھی. مسجد کی محراب کی جانب دیواروں اور چھت کے درمیان چند فٹ اونچی اور تقریباً 30 فٹ لمبائی میں جگہ خالی رکھی گئی تھی تاکہ روشنی اندر آسکے. دروازے کے بائیں طرف کونے میں پتھر رکھ کر شدید سردی سے بچنے کے لیےآگ جلانے کا بندوبست کیا ھوا تھا . شام کے 5:23 بجے ھم لوگ 7345 فٹ بلند مقام پر موجود مسجد میں رات گزارنے پر مجبور ھو چکےتھے. گیلی گھاس پر ربڑ میٹریس بچھا کر سلیپنگ بیگ اوڑھ کر بیٹھ گئے اورسر پر گرنے والے پانی سے بچنے کے لیے باریک پلاسٹک کی چادر اوڑھ لی اور تین گھنٹے آپس میں گپیں مارتے رھے. موسم کافی سرد ھو چکا تھا کچھ دیر بعد دو مقامی چرواھے کھانا لے کر آگئے جو گندم اور مکئی کی موٹی روٹی,بکری کے دودھ کی لسی , ابلے ھوے نمک مرچ کے بغیر بنے ساگ اور متر پر مشتمل تھا ( متر بنانے کے لیے دھی کو ھلکی آنچ پر گرم کیا جاتا ھے اور پانی چھان کر سفید گاڑھے مواد کو الگ کر لیا جاتا ھے جس کا ذائقہ بے حد ترش ھوتا ھے) چند لقمے کھا کر ھی میرا دل بھر گیا. چرواھوں کی غذاؤں سے سمجھوتا کرنا میرے لیے تقریباً ناممکن کام ھے لیکن رفیع صاحب نے دل کھول کر ھاتھ صاف کیا. کھانے کے بعد چرواھے برتن لے کر چلے گئے اور ھم بھی سونے کے لیے لیٹ گئے. رات بے حد سرد ھو چکی تھی, دیواروں اور چھت میں موجود خلاء سے اندر آتی بھیگی ھوئی سرد ھوا نے گرم جیکٹ پہن کر لیٹنے پر مجبور کر دیا. پلاسٹک کی شیٹ اوڑھنے کی وجہ سے سانس کی نمی سلیپنگ بیگ کو گیلا کر رھی تھی. نیند کے عالم میں کروٹ بدلنے پر جب گیلا سرد کپڑا چہرے پر لگتا تو میں ھڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا اور صورتحال کا اندازہ کر کے دوبارہ سو جاتا. ساری رات یہی کیفیت رھی اور موسلا دھار بارش بھی برستی رھی. صبح کے کسی پہر بارش تھم گئی اور ھم بھی اٹھ کر چرواھوں کی مہیا کردہ بکری کے دودھ کی چائے اور سادہ روٹی کے چند لقمے کھا کر 9:17 بجے آگے جانے کے لیے نکل پڑے. گھروں کے نزدیک موجود چشمے سے پانی پی کر پیدل مارچ شروع کر دیا. کافی سفر کے بعد چڑھائی اب کافی عمودی اور مشکل ھو چکی تھی. نالے کے دونوں جانب موجود پہاڑوں کا درمیانی فاصلہ کم ھوتا جارھا تھا. نیچےبیاڑ سے کچھ لوگ اپنے مویشیوں کی تلاش میں اوپر جا رھے تھے. حسب روایت سب لوگ سلام دعا کرتے جا رھے تھے. تمام اشخاص کی جانب سے مہمان بننے کی دعوت بھی مل رھی تھی. ھر دوسرا شخص چاہتا تھا کہ ھم اپنا بوجھ ان کے حوالے کر دیں. مہمان کی خدمت کرنا اور وزن اٹھانا یہ اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے ھیں. دو لوگ ھمارے ساتھ ساتھ چلنا شروع ھو گئے. ایک کو بخار اور سر درد کا عارضہ لاحق تھا جسے ڈسپرین کی کچھ گولیاں دے کر اپنا گرویدہ بنا لیا. میرے لاکھ منع کرنے کا باوجود زبردستی میرا رک سیک اتروا کر اپنے کندھوں پر لٹکا لیا اور اپنی ھولسٹر میں موجود پستول اور گولیوں کی بیلٹ, واسکٹ سمیت مجھے پہنا دی. دوسرے شخص نے بھی زبردستی رفیع صاحب کا سامان اتروا کر خود اٹھا لیا. ان دونوں نے تقریباً 650 فٹ بلندی تک ھمارا سامان اٹھایا پھر اپنے مطلوبہ مقام پر ھم سے الوادع ھو گئے. اب ھم لوگ نالے کے بلکل ساتھ چل رھے تھے جس کے دوسری طرف کچھ گھر نظر آرھے تھے. ایک بندہ گھر سے نکلا اور بپھرے ھوئے جھاگ اڑاتے پرشور نالے کو پانی میں پوشیدہ چٹانوں پر چلتے ھوے عبور باآسانی عبور کر لیا. عمودی چڑھائی کا دشوار زاویہ اب آسان ھوتا جا رھا تھا اور دونوں طرف موجود پہاڑوں کا درمیانی فاصلہ کافی کم ھو چکا تھا.اب ھم جھیل سے آنے والے نالے کے بلکل ساتھ ساتھ چل رھے تھے. مزید چڑھنے پر اب ھم پہاڑوں پر موجود ایک کھلے وادی نما علاقے میں داخل ھوتے جا رھے تھے. سامنے والے پہاڑوں کی چوٹیوں پر سوات کی جانب سے بادل نمودار ھونا شروع ھو چکے تھے.
دن 2:30 بجے ھم لوگ. 10600 فٹ بلند مقام پر واقع چاچو بانڈہ پہنچ چکے تھے. درجہ حرارت 18.5 سینٹی گریڈ ھو چکا تھا. بادلوں کے ساتھ آنے والی یخ بستہ ھوا ماحول کو سرد بنا رھی تھی. سامنے والے زیادہ تر گھر خالی نظر آرھے تھے. دور ایک گھر کے باھر دو بچے اپنے والدین کے ساتھ نظر آرھے تھے. ھم پر نظر پڑتے ہی عورت تو گھر کے اندر اوجھل ھو گئی اور مرد بچوں کے ساتھ ھماری طرف آنے لگا. بادلوں کی شدید گرج, بجلی کی چمک, اور ھوا میں موجود نمی بتا رھی تھی کہ عنقریب بارش ھونے والی ھے. سلام دعاء کے بعد مرد سے رھائش کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں بنے ھوے گھر گندے اور رھائش کے قابل نہیں ھیں, بہتر ھے کہ آپ آگے شندور بانڈہ چلے جائیں. کھانے کے مطالبے پر کچھ دیر بعد وہ لسی, متر اور دھی, نمک لے آیا. ساتھ میں مکئی کی موٹی روٹی لے آئے جو شائد تازہ مکئی کو پتھر کی سلِ پر پیس کر پکائی گئی تھی, جس میں پکنے کے بعد بھی مکئی کے موٹے چھلکے اور دانے موجود تھے. دھی کے ساتھ موٹی روٹی کے چند لقمے بمشکل چبائے. لیکن احساس ھوا کہ اب تک ان بانڈوں سے دھی نہ کھا کر میں ُکفرانِ نعمت کرتا رھا ھوں.اتنی گاڑھی, تازہ, خالص اور خوشذائقہ دھی اس سے پہلے میں نے پوری زندگی میں نہیں کھائی. شہروں کی مصنوعی دودھ سے بنی پیٹ خراب کرنے والی بدذائقہ دھی میں نے ایک طویل مدت سے کھانا چھوڑ رکھی ھے. کھانے کے بعد میزبان کا شکریہ ادا کر کے آگے روانہ ھوے. نیچے جس بانڈے میں ھم نے رات گزاری تھی اس کا نام کاچل بانڈہ ھے . وھاں موجود چرواھوں کے مطابق ھم لوگ بارشوں کے موسم میں آئے ھیں, یہاں 3:00 بجے کے بعد روزانہ بارش ھوتی ھے اور کچھ دنوں میں برف باری ھونے والی ھے . سیاحت کا بہترین وقت اگست کا آغاز ھے. بادل اب بہت زیادہ گہرے ھو چکے تھے اور اندھیرے کا سماں ھو چکا تھا.سردی کی شدت کی وجہ سے میں گرم پولیسٹر کی جیکٹ پہننے پر مجبور ھو گیا. حیران کن طور پر 3:00 بج کر کچھ منٹ پر یکدم گرج چمک کے ساتھ تیز بارش اور شدید ژالہ باری شروع ھو گئی جو اتنی شدت سے برسی کہ بارش سے بچاؤ کے کپڑے بھی نہ پہن سکے. ایک منٹ کے اندر اندر میں مکمل بھیگ چکا تھا. اسی حالت میں اوپر جاتے رھے. غالباً آدھہ گھنٹہ چلنے کے بعد 11230 فٹ بلندی پر واقع ایک مختصر جھیل ھمارے سامنے نمودار ھوئی جس کے کناروں پر چلتے ھوئے ھم اوپر شندور بانڈہ پہنچ گئے.
بانڈہ کے باھر ایک چرواھے نے ھمارا استقبال کیا اور اپنے گھر میں لے جانے لگا لیکن اس گھر میں لکڑیاں جلانے کا انتظام نظر نہیں آرھا تھا اس لیے ھم لوگ اوپر ایک دوسری جھیل سے کچھ بلندی پر بنائی گئی مسجد میں چلے گئے. پتھروں سے بنائی گئی اس مسجد کے اندر دیواروں پر مٹی کا لیپ کیا گیا تھا اور چھت پر پلاسٹک بچھا کر واٹر پروف بنایا ھوا تھا اور زمین پر خشک گھاس بچھی ھوئی تھی. محراب کی طرف ایک مختصر کھڑکی بنی ھوئی تھی.دروازے کے دائیں جانب لکڑیوں کا ڈھیر لگا ھوا تھا اور بائیں جانب پتھروں کے درمیان آگ جلانے کی جگہ بنائی ھوی تھی. سرد ھوا اور بارش سے محفوظ اس آرامدہ مسجد میں داخل ھو کر اللہ کا شکر ادا کیا. برسوں سے میری عادت ھے کہ میں اپنا سارا سامان اور کپڑے پلاسٹک کے الگ الگ تھیلوں میں باندھ کر رک سیک میں رکھتا ھوں تاکہ بارش سے سامان محفوظ رھے. گیلے کپڑے تبدیل کیے اور آگ جلا کرگیلا سلیپنگ بیگ اور جیکٹ وغیرہ خشک کرنے میں مصروف ھو گئے. دن کے 4:14 بجے اب ھم 11320 فٹ بلند مقام پر واقع شندور بانڈہ کی مسجد میں پناہ لینے پر مجبور ھو چکے تھے. ژالہ باری کی وجہ سے مسجد کے اندر درجہ حرارت 11.6 سینٹی گریڈ ھو چکا تھا لیکن ھم لوگ آگ کی سکون بخش حرارت سے لطف اندوز ھو تے ھوے کپڑے خشک کر رھے تھے. رات کو 8:30 بجے کے قریب گوجر چرواھا اپنے بچے کے ساتھ روٹی, متر اور لسی لے کر آگیا. خوراک کی کمی کی وجہ سے ھم نے یہی سوچا تھا کہ چرواھوں کی مہیاکردہ غذاؤں پر ھی گزارا کریں گے لیکن اس چرواھے کے اپنے پاس بھی خوراک کم تھی اس لیے ھم نے دو روٹیاں رکھ کر باقی خوراک واپس کر دی اور اپنے ساتھ لایا ھوا آلو قیمہ کا ٹنِ کھول کر آدھا کھا لیا اور آدھا چرواھے کے حوالے کر دیا. کھانے کے بعد چائے بھی پیش کی گئی جس میں چینی نا ھونے کے برابر تھی, استفسار پر پتا چلا کہ میزبان کے پاس چینی بھی ختم ھو چکی ھے. ھم ایک پاؤ چینی اپنے ساتھ لائے تھے جو آدھی ھم نے زبردستی چرواھے کو دے دی. یہ چرواھا اوپر پہاڑوں میں گم شدہ اپنے مویشی اکھٹے کر رھا تھا مویشی ملنے کے بعد اس نے بھی اپنے بیوی بچوں سمیت نیچے بیاڑ چلے جانا تھا. کھانے کے بعد چرواھا برتن سمیٹ کر واپس چلا گیا اور ھم لوگ بھی آگ بجھا کردروازہ کھول کر سو گئے. رات کو آگ جلا کر سونا جان لیوا ثابت ھو سکتا ھے کیونکہ بلندی پر ویسے ھی آکسیجن کم ھوتی ھے اور آگ جلانے سے بند کمرے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ھونے کی صورت میں بحالتِ نیند موت واقع ھو جاتی ھے. صبح چمکدار دھوپ نکل آئی تھی, سارا بھیگا ھوا سامان مسجد کے باھر دھوپ میں پھیلا کر بیٹھ گئے.
تھوڑی دیر بعد چرواھا بھی چائے اور سادہ روٹی لے آیا. چائے کے ساتھ کچھ لقمے روٹی کھا کر ھم نے فیصلہ کیا کہ آج کا دن یہاں ھی گزارتے ھیں اور علاقے میں جھیلوں کی تصاویر عکس بند کرتے ھیں. کچھ دیر بعد شکل و شباھت سے انگریز لگنے والا ایک چرواھا اپنا گم شدہ بچھڑا ڈھونڈتا ھوا ھمارے پاس آگیا. موجودہ موسم میں نچلے علاقے میں گھاس ختم ھونے کی وجہ سے مویشی اوپر چوٹیوں پر چلے جاتے ھیں جنہیں ڈھونڈنا بہت صبر آزما کام ھے. کئی دنوں کی مشقت کے بعد انھیں مویشی ملتے ھیں. یہ چرواھا کچھ دن پہلے بھی ناکام واپس چلا گیا تھا اب دوبارہ بچھڑے کی تلاش میں تھا. کافی گپ شپ لگائی اور اسے ماڈل بنا کر تصاویر بھی اتارتے رھے. سامان مکمل خشک ھو چکا تھا اس لیے مسجد میں رکھ دیا اور اوپر شندور ڈنڈ کی طرف چل پڑے. جھیل کے راستے میں گزشتہ روز ھونے والی بارش اور ژالہ باری کے نتیجے میں بننے والے ایک مختصر تالاب میں نظر آتے بادل اور چوٹیوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ھوئے 10:54 بجے11821 فٹ بلند شندور ڈنڈ پہنچ گئے. درجہ حرارت 22.8 سینٹی گریڈ ھو چکا تھا. صاف موسم کی وجہ سے بہت سے چرواھے پہاڑوں میں مویشی ڈھونڈتے نظر آرھے تھے. جھیل کی کچھ تصاویر عکس بند کر کے کافی دیر تک مناظر سے لطف اندوز ھونے کے بعد بائیں جانب والے پہاڑوں پر چڑھ کر شندور بانڈہ کے بائیں جانب والے پہاڑ کی چوٹی کی جانب روانہ ھوے . چڑھائی کافی عمودی اور بولڈرز پر مشتمل تھی. پتھروں میں بہتے مختصر پانی
 (جاری)