RIVER PANJKORA A SHORT HISTORY OF DIR KOHISTAN - Daily Kumrat Daily Kumrat

Latest

Wednesday 31 May 2017

RIVER PANJKORA A SHORT HISTORY OF DIR KOHISTAN


وادی پنجکوڑہ ( دیر کوہستان) کا مختصر تعارف
 دیر کوهستان ( وادی پنجکوڑہ ) چاروں طرف سے آسمان سے سرگوشیاں کرتے ہوئے سر سبز وشاداب پہاڑوں میں گھری‘ دلکش و حسین‘ مہکتی ہوئی وادی ہے ، برف سے ڈھکے پہاڑ اور ان کی چوٹیوں پر اُڑنے والے سفید و سیاہ بادل‘ ایک طلسماتی منظر تخلیق کرتے دکھائی دیتے ہیں، دیر کوہستان برف پوش چوٹیوں اَن گِنت جھرنوں گلیشیئرز ، پانی کی جھرنوں، چراگاہوں ،گھنے جنگلات ،قدرتی پارکوں، شفاف پانی کے چشموں جھیلوں اور تاریک جنگلوں کی وجہ سے مشہور ہے ، یہاں کے گھنے جنگلات میں صنوبر، کائل دیار اور کنڈل وغیرہ کے درخت پائے جاتے ہیں،دیر کوهستان ( وادی پنجکوڑہ ) بیادی طور پر چھ ( 6 )گاؤں اور بے شمار وادیوں جسے گوالدئی ، شیٹاک، کینگل، سبرو، جبڑئی، جنکئی یا جونکئی، دراگ، جندرئی ، کمراٹ وغیرہ پر مشتمل ہیں
وادی پنجکوڑہ یا دیر کوہستان کا پہلا گاؤں پاتراک ہے ، جسے مقامی کوہستانی زبان میں راجکوٹ بھی کہتے ہے، راجکوٹ وادی پنجکوڑہ کا دروازہ کہلاتا ہے، اور دیر کوہستان کا پہلا اور سب سے بڑا گاؤں ہے ، دریائے پنجکوڑہ کے کنارے واقع اس گاؤں میں راج مور، رام مور وغیرہ کوہستانی قبائیل آباد ہے اس کے علاوہ بڑی تعداد میں پشتون گوجر بھی آباد ہیں، بیاڑ دیر کوہستان کا دوسرا گاؤں ہے ، یہاں جونور ملا نور ( ملا خیل) وغیرہ کوہستانی قبائیل آباد ہیں گوجر اور پشتون بھی بڑی تعداد میں یہاں رہتے ہیں،بریکوٹ جس کا کوہستانی زبان میں نام بیود ہے دیر کوہستان کا ایک اہم گاؤں ہے ، یہاں کے لوگ زیادہ تر سرکاری نوکر پیشہ ہے، دیر کوہستان میں پیود یا بریکوٹ کے لوگ سب سے زیادہ پڑے لکھے ہیں ، یہاں جونور ، جنگی رور، درویزور، ؤغیرہ کوہستانی قبائیل آباد ہے ، اس کے علاوہ آخون زادگان اور دوسرے غیر کوہستانی قبائیل بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں، کلکوٹ وادی پنجکوڑہ کا ایک خوبصورت گاؤں ہے ، تحصیل کلکوٹ دیر کوہستان کا صدر مقام ہے ، یہاں ٹی ایم اے کے آفس بھی واقع ہے ، اس کے علاوہ ممبر صوبائی اسمبلی محمد علی کا تعلق بھی کلکوٹ سے ہے ، کلکؤٹ دیر کوہستان کا ایک منفرد گاؤں ہے جہاں بیک وقت دو زبانیں بولی جاتی ہیں گاوری اور کلکوٹی ، کلکوٹی کا تعلق دردک گروپ کے شینا شاخ سے ہے ، اور گاوری کا تعلق کوہستانی شاخ سے ہے، کلکوٹ میں وزیرور۔جونور, دراگی ، چھوداخیل ،ملانور۔ وغیرہ ؤغیرہ کوہستانی قبائیل آباد ہے ۔ پشتونوں کے متعلق مشہور ہے کی یہ مخلوق چاند پر بھی آباد ہیں ، تو کلکوٹ میں بھی گوجر اور پشتون آباد ہے ۔
کلکوٹ کے بعد لاموتی یا کینہ لام دیر کوہستان کا پانچھواں گاؤں ہے یہاں جونور، جنگی رور ، دو کھو نور، ملا نور وغیرہ کوہستانی قبائیل آباد ہے گوجر اور پشتون یہاں بھی آباد ہیں، دیر کوہستان کا آخری گاؤں تھل ہے ، جو کہ دیر کوہستان کا دل کہلاتا ہے ، تھل کو اگرجادوئی وادی کمراٹ کا بیس کیمپ کہا جائے تو مذائقہ نہ ہوگا،تھل اپنی تاریخی مسجد کے پہلوں میں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے صدیوں سے آباد ہے ، یہاں گوجر اور پشتونوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، سیلور چترور اور میرور وغیرہ کوہستانی قبائیل آباد ہیں ، باٹا وار بنال، سالیٹ بنال ، آسپا وان، چروٹ بنال، تکی شاہ بانال ، کوش بنال، ریوشئی،بتوڑ بنال، کونڈل بنال، گورشئی بنال، ایزگلو بنال, خزان کوٹ ، جہاز بانڈا، کٹورہ جھیل ، تھل کی عظیم مسجد وغیرہ وغیرہ دیر کوہستان کے اہم مقامات ہیں۔ یہاں ایسے آثار اور روایات بھی موجود ہیں جن سے زرتشت مذہب، بُدھ مذہب اور آریا مت (ہندو)کے متعلق گراں قدر معلومات ہاتھ آسکتی ہیں، گھاس سے بھرے میدانوں ، لذت سے بھر پور ٹراﺅٹ ،اپنی جڑوں میں خوفناک سانپ لیے رات کو جگنو کی طرح چمکنے والا پودا ،“بنگ سادپونڈ“ ،سوما‘‘ (اسے باٹنی میں اِفیڈرا پلانٹ کہا جاتاہے اور اس سے ایفیڈرین نامی دوائی کشید کی جاتی ہے) نامی پودا بھی پایا جاتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ ہر قسم کی جسمانی قوت کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب رِگ وید کے مطابق یہ پودا بہت قوت بخش ہے اور قدیم زمانے میں یہ روحانی قوت بڑھانے کا ایک بڑا محرک بھی سمجھا جاتا تھا۔ قدیم کتابوں میں اس پودے کے حیرت انگیز کرشمے بیان کئے گئے ہیں۔ اس پودے سے ’’سوم رس‘‘ نامی شراب بھی نکالی جاتی تھی،جس کا ذکر سوم رس کے نام سے ہندؤں کی قدیم متبرک کتابوںمیں تفصیل سے ملتا ہے،مارخور , برفانی ہمالیاتی چیتے ،چکور ، مرغ زریں اور بہت سارے دوسرے اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن یہ وادی سیاحوں کے لیے ابھی تک سر بستہ راز کی حیثیت رکھتی ہے،
دریائے پنجگوڑہ میں ٹراﺅٹ مچھلی کی بہتات ہے لیکن اس برفیلے اور تند رفتار پانی میں مچھلی کا شکار نہایت مشکل ہے۔ بغیر مقامی تجربہ کاروں کی مدد کے یہ کام بہت خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے ، قدرتی چشموں اور جگہ جگہ رواں شفاف پانی کے باعث اس علاقے کو پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں بآسانی شامل کیا جا سکتا ہے۔ چاہے مختصر تفریحی دورہ ہو یا کیمپنگ کا ذوق رکھنے والوں کا تفصیلی سفر، وادی پنجکوڑہ ہر طرح کے لوگوں کے لئے ایک جنت سے کم نہیں۔ کمراٹ کے ارد گرد موجود بڑی آبشاریں بھی اس کی انفرادیت کو چار چاند لگاتی ہیں۔ ان آبشاروں تک پہنچنے کے لئے کچھ بلندی تک چلنا پڑتا ہے۔ لیکن کمراٹ جا کر ان آبشاروں کا قریب سے مشاہدہ نا کرنا بدذوقی ہی کہی جا سکتی ہے۔ دیر کوہستان کےتمام علاقوں کے لوگ مہمان نواز اور پرخلوص ہیں۔ مذہبی رجحان اور مقامی روایات کے حامل اہل کوہستان مہمان نوازی کو بنیادی اخلاقیات میں سرفہرست سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مہمانوں کی راہنمائی کے لئے اپنے کاروبار اور کام کاج تک کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس طرح کی کسی بھی خدمت کے عوض معاوضے کی پیشکش کو بھی قبول نہیں کرتے، یہاں کے لوگ اپنی قدیم تہذیب میں رنگے ہوئے ہیں۔ مذہبی لحاظ سے پکے مسلمان ہیں، دیر کوہستان کے لئے ایک راستہ ضلع سوات سے بھی ممکن ہے۔ کالام اور اتروڑ سے ہوتا ہوا یہ راستہ ایک دشوار، نہایت بلند لیکن انتہائی گھنے جنگلات میں سے گزرتا ہے۔ اس راستے سےسفر اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد سفر ہے۔
اس سفر کے لئے چھوٹی جیپ اور چاک و چوبند ڈرائیور کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے ، دریائے پنجکوڑہ کے کنارے واقع یہ خوب صورت مقام دلوں میں نئی اُمنگ پیدا کرتا ہے۔ جو لوگ اس وادی کا رُخ کرتے ہیں یہاں کے دل فریب مناظر میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ وادی پنجکوڑہ کی خوب صورتی اور حسین مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن پختہ سڑک کی غیر موجودگی نے اس خوبصورت وادی کو سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا ہواہے۔دیر کوہستان کی زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی، مویشی پالنا، اور کچھ دوسرے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں، اب گزشتہ چند سالوں سے دیر کوہستان کے نوجوان باہر ملکوں میں (سعودی عرب، دبئی، قطر اور افریقہ) میں محنت مزدوری کرتے ہیں، دیر کوہستان میں تعلیم کے حد سے زیادہ کمی ہے، ہے اسکی بنیادی وجہ یہاں پر نوابوں کے حکمرانی ہے کیونکہ انہوں نے لوگوں کو تعلیم کے بجائے اندھیروں میں رکھا اور اپنے کام کاج کیلئے (بیگار) لیتے تھے ، اسلئے 1960 تک پورے ریاست دیر میں ایک یا دو 2 میٹرک پاس لوگ تھے جنہوں نے بھی چھپے چھپے پشاور یا دوسرے جگہوں سے تعلیم حاصل کی تھی، نوابوں کے دور میں کسی کو بھی سفید رنگ کی کپڑے کی پہننے کی اجازت نہیں تھی،نواب دیر نے اپنے لئیے مختلف علاقوں میں "ملک" رکھے ہوئے تھے اور ان کے مدد سے لوگوں سے سالانہ ٹیکس (قلنگ) لیتا تھا اگر کوئی ملک یا شخص حکم ماننے سے انکار کر دیتا تو اس کو علاقہ بدر کیاجاتا تھا ،1960 تک کوئی تعلیمی نظام نہیں تھا کوئی ہاسپٹل نہیں تھا اگر کوئی بیمار ہو تا تو گهریلوی جڑی بوٹیوں سے اس کا علاج کیا جاتا تھا،دیر کوہستان کے کوہستانی قوم میں اتفاق ہیں، حالیہ دور میں دہشت گردی کے لہر میں کوہستان بلکل محفوظ رہا پولیس کے جانے کے بعد لوگوں نے خود اپنے مدد آپ کے تحت تقریباً 4، 5 مہینے ان تھانوں اور چیک پوسٹوں پر ڈیوٹی کی اور کسی مشتبہ افراد کو علاقے میں آنے نہیں دیا،کوہستان میں جرگہ سسٹم بہت پرانا ہے زیادہ تر لوگ اپنے مسائل کچہری کے بجائے جرگے سے ہی حل کرتے ہیں، دیر کوہستان کے لوگ بہت محنت کش اور جفاکش ہیں رنگت زیادہ تر گورا اور مضبوط جسامت کے ساتھ ساتھ خوش مزاج بھی ہیں، عمران خان آزاد